تخریج: «أخرجه مسلم، النكاح، باب نكاح المتعة....، حديث:1405.»
تشریح:
یہ معلوم رہے کہ متعہ دو مرتبہ حرام ہوا اور دو مرتبہ مباح و جائز ہوا‘ چنانچہ یہ غزوۂ خیبر سے پہلے حلال تھا‘ پھر اسے غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا‘ پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر مباح کیا گیا۔
غزوۂ اوطاس کا سال بھی یہی ہے۔
اس کے بعد یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔
یہ امام نووی رحمہ اللہ کا کلام ہے جب کہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ متعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حرام نہیں کیا گیا بلکہ اس کی تحریم فتح مکہ کے سال ہوئی اور یہی رائے درست ہے۔
اور اہل علم کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ متعہ خیبر کے موقع پر حرام ہوا ہے‘ پھر حلال کیا گیا،پھر حرام کیا گیا۔
اور انھوں نے صحیحین میں مروی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے
(جو آگے آرہی ہے۔
) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے متعہ کے سوا اور کوئی چیز ایسی نہیں دیکھی جسے حرام کیا گیا ہو‘ پھر حلال کیا گیا ہو‘ پھر اسے حرام قرار دیا گیا ہو۔
اہل علم کے اس گروہ کا کہنا ہے کہ متعہ دو دفعہ منسوخ ہوا ہے۔
مگر بعض دوسرے لوگوں نے اس رائے کی مخالفت کی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ متعہ صرف فتح مکہ کے سال ہی حرام کیا گیا ہے‘ اس سے پہلے مباح و جائز تھا۔
اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے متعہ کی حرمت اور گھریلو گدھے کی حرمت کو اس لیے اکٹھا بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ان دونوں کو مباح و حلال سمجھتے تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تردید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں کی تحریم بیان کی ہے۔
اور چونکہ پالتو گدھے کی تحریم یوم خیبر میں ہوئی تھی‘ اس لیے اس کی تحریم کے لیے خیبر کے دن کو بطور ظرف ذکر کیا ہے اور تحریم متعہ کو مطلق بیان کیا ہے‘ کسی وقت و زمانے سے مقید نہیں کیا جیسا کہ مسند احمد میں صحیح سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کے گوشت کو حرام قرار دیا اور آپ نے عورتوں کے متعہ کو بھی حرام کیا ہے۔
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے عورتوں کے متعہ کو حرام قرار دیا اور خیبر کے دن گھریلو گدھے کا گوشت کھانا حرام کر دیا۔
امام سفیان بن عیینہ نے دونوں کی حرمت کو اسی طرح تفصیل کے ساتھ علیحدہ علیحدہ بیان کیا ہے۔
بعض راویوں نے سمجھا کہ ان دونوں کو خیبر کے روز ہی حرام کیا گیا ہے تو انھوں نے دونوں کو خیبر کے روز سے مقید کر دیا۔
پھر بعض راویوں نے دونوں میں سے ایک‘ یعنی گدھے کی تحریم پر اقتصار کیا اور خیبر کے دن سے اسی کو مقید کیا‘ بس یہیں سے وہم پیدا ہوا۔
اور رہا قصۂ خیبر! تو اس غزوے کے دوران میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم یہودی عورتوں سے متعہ نہیں کرتے رہے۔
اور نہ انھوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔
اور نہ کسی نے کبھی اس غزوے میں اسے نقل کیا ہے۔
اور نہ اس غزوے میں متعہ کے فعل یا اس کی تحریم کا
(حتمی) ذکر ہے۔
بخلاف فتح مکہ کے کیونکہ فتح مکہ کے موقع پر متعہ کے فعل اور اس کی تحریم کا ذکر مشہور ہے۔
روایات کی تطبیق میں مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے آخر الذکر صورت صحیح ترین ہے۔
(زادالمعاد:۳ /۳۴۳.۳۴۵ ملخصًا) اور علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ متعہ کی حرمت پر مسلمانوں کا گویا اجماع ہے۔
اور سوائے بعض روافض کے امت مسلمہ میں کوئی بھی اس اجماع کے مخالف نہیں۔