تخریج: «أخرجه أبوداود، النكاح، باب في الولي، حديث:2085، والترمذي، النكاح، حديث:1101، وابن ماجه، النكاح، حديث:1881، والنسائي: لم أجده، وأحمد:4 /394، وانظر لا بطال التعليل نيل المقصود لراقم الحروف،والحمد لِلهِ، وحديث عمران بن حصين أخرجه أحمد: لم أجده، ومتن الحديث صحيح بالشواهد.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
2.اس حدیث کو تیس کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم نے روایت کیا ہے اور اس کے بعض طرق صحیح اور بعض ضعیف ہیں۔
3.جمہور علماء کی بھی رائے یہی ہے کہ ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
اگر کسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کو ہو گی۔
اگر کوئی بھی ولی نہ ہو تو حدیث میں ہے کہ سربراہ مملکت اس کا ولی ہے۔
اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں اور ان میں اختلاف ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی حاکم ولی ہو گا۔