وعن قبيصة بن مخارق الهلالي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش ورجل أصابته فاقة حتى يقول ثلاثة من ذوي الحجا من قومه: لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسألة» . رواه مسلم.
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بیشک تین آدمیوں میں سے کسی ایک کے سوا کسی دوسرے کے لئے سوال کرنا حلال نہیں۔ ایک وہ آدمی جس نے ضمانت کا بوجھ اٹھایا ہو۔ اس کے لئے تاوان و ضمانت کی مقدار تک سوال کرنا جائز ہے اس کے بعد سوال کرنا چھوڑ دے اور ایک وہ آدمی جسے کوئی آفت پہنچی ہو اور اس نے اس کا مال تباہ و برباد کر دیا ہو اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے تاوقتیکہ اس کے لئے گزران کی کوئی سبیل نکل آئے اور ایک وہ آدمی جو فاقہ میں مبتلا ہو، یہاں تک کہ اس کی شہادت اس کی قوم کے تین قابل اعتماد آدمی دیں۔ اس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 734]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث:1044.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 734
تخریج: «أخرجه مسلم، الزكاة، باب من تحل له المسألة، حديث:1044.»
تشریح: 1. اس حدیث میں صرف تین قسم کے آدمیوں کے لیے دست سوال دراز کرنے کی اجازت ہے اور وہ بھی محدود وقت کے لیے۔ انھی میں سے ایک ضامن ہے‘ وہ اگر مفلس نہ بھی ہو تب بھی اس کے لیے سوال کر کے ضمانت دی ہوئی رقم کو ادا کرنا جائز ہے۔ 2. جو شخص فاقے میں مبتلا ہے اس کے لیے تین افراد کی گواہی کا حکم استحباب اور احتیاط کے پہلو سے ہے۔ اس کی حیثیت شرط کی نہیں کہ اس کے بغیر وہ سوال ہی نہیں کر سکتا جیسا کہ عمومی ادلہ کی بنا پر علماء نے کہا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 734