وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قلت: يا رسول الله إن فلانا قدم له بز من الشام فلو بعثت إليه فأخذت منه ثوبين نسيئة إلى ميسرة فبعث إليه فامتنع. أخرجه الحاكم والبيهقي ورجاله ثقات.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ” یا رسول اللہ! فلاں صاحب کا شام سے کپڑا آیا ہے۔ آپ بھی کسی کو بھیج کر دو کپڑے کشادگی تک ادھار خرید لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف ایک آدمی کو بھیجا، مگر اس نے (ادھار دینے سے) انکار کر دیا۔ اسے حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب البيوع/حدیث: 722]
تخریج الحدیث: «أخرجه الحاكم:2 /24، والبيهقي: لم أجده في السنن الكبرٰي.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 722
تخریج: «أخرجه الحاكم:2 /24، والبيهقي: لم أجده في السنن الكبرٰي.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے کوئی چیز ادھار خریدنا جائز ہے۔ 2. اس کپڑے بیچنے والے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ادھار دینے سے انکار غالباً ذاتی عداوت و عناد کی وجہ سے کیا تھا۔ شارحین نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا‘ آپ کی ذات اقدس سے اسے دشمنی تھی‘ اس لیے اس نے انکار کیا تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 722