تخریج: «أخرجه أحمد:1 /388، يزيد بن أبي زياد ضعيف وعنعن.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے پانی میں موجود مچھلی کی خرید و فروخت ممنوع ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی میں صحیح طور پر معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ مچھلیوں کی تعداد و مقدار کتنی ہے‘ کونسی مچھلی ہے‘ عمدہ اور بہترین نسل کی ہے یا کم تر نسل کی‘ جسامت و ضخامت میں بڑی ہے یا چھوٹی‘ مچھلیاں ہیں یا مگرمچھ؟ جب صحیح علم ہی نہیں تو پھر فروخت کس چیز کی؟ نہ فروخت کنندہ کے قبضے میں ہے اور نہ اس کی ذاتی ملکیت‘ اگر ذاتی تالاب وغیرہ بھی ہوں تب بھی مقدار و تعداد اور تعین جنس ناممکن ہے۔
2. یہ حدیث موقوف ہے‘ نیز ضعیف بھی‘ اس لیے کہ اس کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے۔
اور مسیب بن رافع اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مابین ارسال ہے۔
علامہ سندھی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن معناً صحیح ہے۔
اور یہی بات اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۶ /۱۹۷. ۱۹۹)