وعن عائشة رضي الله عنها قالت: دخل النبي صلى الله عليه وآله وسلم على ضباعة بنت الزبير بن عبد المطلب رضي الله عنها، فقالت: يا رسول الله! إني أريد الحج، وأنا شاكية؟ فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «حجي واشترطي أن محلي حيث حبستني» . متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں حج کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں مگر میں بیمار ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ ”حج کر مگر یہ شرط کر لے کہ میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں اے اللہ! تو نے مجھے روکا۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 646]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، النكاح، باب الأكفاء في الدين، حديث:5089، ومسلم، الحج، باب جواز اشتراط المحرم التحلل بعذر المرض، حديث:1207.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 646
646لغوی تشریح: «شاكيه» بیمار۔ «محلي» ”میم“ پر فتحہ اور ”حا“ کے نیچے کسرہ ہے، یعنی حج سے خروج کا مکان اور احرام کھول کر میرے حلال ہو جانے کی جگہ۔ مقصود اس سے وقت اور مقام دونوں کا بیان ہے۔ اور یہ ظرف زمان اور ظرف مکان دونوں کے معنی دے رہا ہے۔ «حبستني» صیغئہ مخاطب، یعنی ”اے اللہ! جہاں تو مجھے روک لے گا۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احرام میں شرط لگانا صحیح ہے۔ شرط لگانے والے کو جب کوئی مانع پیش ہو جائے تو محصر کی طرح اس پر قربانی وغیرہ کرنا لازم نہیں۔
وضاحت: حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہما، ان کی کنیت ام حکیم ہے۔ ضباعہ کے '”ضاد“ پر ضمہ ہے۔ نسب نامہ ضباعہ بنت زبیر بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچازاد بہن ہیں۔ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ تھیں اور ان کے دو بچے عبداللہ اور کریمہ تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فوت ہوئیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 646
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2902
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا: ”کیا تو نے حج کا ارادہ کیا ہے؟“ اس نے جواب دیا، اللہ کی قسم! میں تو اپنے آپ کو بیمار پاتی ہوں، (میں بیمار ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”حج کا ارادہ کر لے اور شرط لگا لے اور یوں کہہ لے، اے اللہ! میں اس جگہ حلال ہو جاؤں گی، جہاں تو مجھے روک لے گا۔“ وہ حضرت مقداد رضی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2902]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے احرام باندھنے والا یہ شرط لگا سکتا ہے کہ اگر میں راستہ میں بیمار پڑ گیا تو میں جہاں بیمار پڑ گیا وہیں احرام کھول دوں گا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کا یہی نظریہ ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ اور اما مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ شرط لگانا درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اجازت صرف حضرت ضباعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے مختص تھی لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ علامہ سعیدی کا اس حدیث کے بخاری میں ہونے کا انکار درست نہیں ہے۔ یہ حدیث کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین میں موجود ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2902
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5089
5089. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا ضباعہ، بنت زبیر ؓ کے پاس گئے اور ان سے فرمایا: ”شاید تمہارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے عرض کی: اللہ کی قسم! میں تو خود کو بیمار پاتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم حج کا احرام باندھ لو، البتہ شرط لگا کر یوں کہہ دو: اے اللہ! میں اس وقت حلال ہو جاؤں گی جب تو مجھے روک لے گا۔“ اور یہ خاتون سیدنا مقداد بن اسود ؓ کے نکاح میں تھیں. [صحيح بخاري، حديث نمبر:5089]
حدیث حاشیہ: جو قریشی نہ تھے انہوں نے ایسا ہی کیا معلوم ہوا کہ اصل کفائت دنیاوی ہے اور باب و حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5089
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5089
5089. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سیدنا ضباعہ، بنت زبیر ؓ کے پاس گئے اور ان سے فرمایا: ”شاید تمہارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟“ انہوں نے عرض کی: اللہ کی قسم! میں تو خود کو بیمار پاتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم حج کا احرام باندھ لو، البتہ شرط لگا کر یوں کہہ دو: اے اللہ! میں اس وقت حلال ہو جاؤں گی جب تو مجھے روک لے گا۔“ اور یہ خاتون سیدنا مقداد بن اسود ؓ کے نکاح میں تھیں. [صحيح بخاري، حديث نمبر:5089]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نسبی اعتبار سے عمرو کندی کے بیٹے تھے لیکن اسود بن عبد یغوث نے انھیں لے پالک بنایا تھا، اس لیے انھیں مقداد بن اسود کہا جانے لگا۔ انھوں نے قریش سے عہد و پیمان کر رکھا تھا اس بنا پر حلیف قریش تھے، البتہ ان کی شادی ایک ہاشمی خاتون حضرت ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ عنہما سے ہوئی جو حسب ونسب کے اعتبار سے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ چونکہ اسلام میں حسب و نسب کی ثانوی حیثیت ہے، اس لیے اس کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کی شادی حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے کر دی گئی۔ (2) اس میں تنبیہ ہے کہ حسب و نسب پر دین کو ترجیح دی جائے، چنانچہ حدیث میں ہے: ”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کردو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہوگا۔ “(جامع الترمذي، النكاح، حديث: 1084) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے دین و اخلاقی کو ترجیح دی جائے اور نسب و خاندان کی ثانوی حیثیت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5089