الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الحج
حج کے مسائل
6. باب الفوات والإحصار
6. حج سے محروم رہ جانے اور روکے جانے کا بیان
حدیث نمبر: 645
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قد أحصر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ فحلق رأسه،‏‏‏‏ وجامع نساءه،‏‏‏‏ ونحرهديه،‏‏‏‏ حتى اعتمر عاما قابلا. رواه البخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر منڈوایا اور قربانی کی اور اپنی ازدواج سے تعلق زن و شو قائم کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عمرہ کیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 645]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المحصر، با إذا أحصر المعتمر، حديث:1809.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 645 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 645  
645لغوی تشریح:
«باب الفوات والاحصار» «فوات» کی فا پر فتحہ ہے، یعنی اس شخص کا بیان جس نے حج کا احرام باندھا ہو مگر وہ حج نہ کر سکے، جیسے وہ شخص جو عرفہ میں اس وقت پر نہ پہنچ سکا جس میں وقوف عرفہ ضروری اور فرض ہے۔ اور احصار کے معنی روکنے کے ہیں۔ جیسے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے اور بیت اللہ کے درمیان دشمن حائل ہو جائے جو اس کے لیے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے۔ جب دشمن کی وجہ سے پہنچنا ناممکن ہو تو دشمن کی اس رکاوٹ و ممانعت کو «حصر» کہتے ہیں۔
«احصر» صیغہء مجہول، یعنی آپ کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر 6 ہجری میں پیش آیاتھا۔ یہ حدیث اس کی دلیل ہے کہ «محصر» کو جہاں روک دیا گیا ہو، وہیں احرام کھول کر حلال ہو جائے اور وہیں اپنی قربانی کرے۔
«حتي اعتمرا عاما قابلا» حتیٰ کہ آئندہ سال عمرہ کیا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عمرے کی قضا واجب ہے۔ اس میں تو زیادہ سے زیادہ یہی خبر ہے کہ آپ نے عمرہ کیا اور یہ وجوب کا مقتضی نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آپ کا یہ عمرہ پہلے عمرے کی قضا تھی بلکہ یہ تو مستقل طور پر دوسرا عمرہ تھا اور اس کا نام عمرۃ القضا یا عمرۃ القضیہ تو صرف اس لیے رکھا گیا کہ قضا کے معنی ہیں: فیصلہ، اور حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آئیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں صلح حدیبیہ کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھ کر اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ کی طرف آئے۔ مشرکین نے حدیبیہ کے مقام پر آگے بڑھنے سے روک دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں احرام کھول دیا، قربانی کی اور سر کے بال منڈوائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی تھوڑے سے تامل کے بعد احرام کھول دیے اور جن کے پاس قربانی کے جانور تھے، وہیں نحر و ذبح کر دیے۔
«احصار» میں کون سی چیزیں شمار ہوتی ہیں؟ جمہور کہتے ہیں کہ حج و عمرہ کے بجا لانے میں جو چیز بھی مانع ہو اور رکاوٹ بنے اسی سے احصار پیدا ہو جاتا ہے۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ احصار صرف دشمن کے مانع آنے کی صورت ہی میں ہوتا ہے۔
«محصر» کی قربانی کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ جس جگہ احرام کھولا جائے اسی جگہ قربانی کر دی جائے گی، خواہ وہ جگہ «حل» ہو تا «حرم»، اور یہی قول راجح ہے۔ احناف کے نزدیک قربانی ہر صورت میں حرم میں ذبح و نحر ہونی چاہیے اور اسے کسی کے ذریعے سے حرم میں بھیج دیا جائے۔
➍ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر قربانی کا جانور حرم میں پہچانا ممکن نہ ہو تو جہاں ہو وہیں ذبح کر دے۔
➎ رہا یہ مسئلہ کہ محصر پر قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اکثر علماء تو اسے واجب کہتے ہیں مگر امام مالک رحمہ الله کی رائے ہے کہ واجب نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اصحاب کے پاس ہدی (قربانی) تو نہیں تھی، اگر واجب ہوتی تو پھر سب کے لیے وجوب ہوتا، حالانکہ ایسا ثابت نہیں اور یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 645