وعنه رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «اللهم ارحم المحلقين» قالوا:والمقصرين يا رسول الله؟قال في الثالثة:«والمقصرين» . متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”الٰہی سر منڈانے والے حاجیوں پر رحم فرما“ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! بال ترشوانے والے پر بھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا ”بال ترشوانے والوں پر بھی۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 630]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحج، باب الحلق والتقصير عند الإحلال، حديث:1728، ومسلم، الحج، باب تفضيل الحلق علي التقصير...، حديث:1301.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 630
630 لغوی تشریح: «المحلقين» تحلیق سے ماخوذ اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حج اور عمرے سے حلال ہونے کے موقع پر اپنے سر منڈاتے ہیں۔ حلق دراصل بالوں کو جڑوں تک صاف کر دینے کو کہتے ہیں۔ «والمقصرين» یہ عطف تلقین ہے، یعنی آپ یہ بھی کہیں: «والمقصرين» ۔ اور «تقصيعر» بال کٹوانے کو کہتے ہیں جن میں بال جڑ سے صاف نہیں کیے جاتے۔ یہ حدیث بال منڈوانے کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 630
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1728
1728. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے اللہ!سر منڈوانے والوں کو بخش دے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اور سر کے بال کتروانے والوں کو بھی۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ!سر منڈوانے والوں کو بخش دے۔“ لوگوں نے کہا: بال کتروانے والوں کو بھی، آپ نے فرمایا: ”اے اللہ!سر منڈوانے والوں کو بخش دے۔“ لوگوں نے کہا: بال کتروانے والوں کو بھی۔ آپ نے بال منڈوانے والوں کے متعلق تین مرتبہ دعا فرمائی۔ پھر آپ نے فرمایا: ”بال کتروانے والوں کو بھی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1728]
حدیث حاشیہ: (1) حج یا عمرے کے وقت سر منڈوانا افضل ہے اور بال کتروانے جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دو یا تین مرتبہ بال منڈوانے والوں کے متعلق رحمت و مغفرت کی دعا کی ہے اور ایک دفعہ بال چھوٹے کرانے والوں کے متعلق دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے ہیں۔ مذکورہ دعائیہ کلمات آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی کہے تھے جیسا کہ حضرت ام حصین ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بال منڈوانے والوں کے متعلق تین دفعہ دعا فرمائی اور ایک دفعہ بال ترشوانے والوں کے متعلق دعا کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث؛3150(1303) اور صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ نے اسی طرح دعا فرمائی تھی جیسا کہ ابن اسحاق نے اس کی صراحت کی ہے۔ اہل عرب اپنے بال بھانے اور بطور زینت انہیں لمبا کرنے کے عادی تھے۔ ان کے ہاں منڈوانے کا بالکل رواج نہ تھا، اس لیے صلح حدیبیہ یا حج کے موقع پر انہیں منڈوانا بعض حضرات نے پسند نہ کیا جبکہ اکثریت نے آپ کے کہنے یا آپ کے عمل کو دیکھ کر آپ کا کہا ماننے یا آپ کے طریقے پر عمل کرنے میں جلدی کی، اس لیے آپ نے تین مرتبہ منڈوانے والوں کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے بال منڈوانے والوں کے بارے میں تین دفعہ اور کتروانے والوں کے لیے ایک دفعہ دعا کی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”منڈوانے والوں نے کسی قسم کا تردد نہیں کیا بلکہ میرا حکم ماننے میں پہل کی ہے۔ “(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3045)(2) واضح رہے کہ اگر حج سے چند دن قبل عمرہ کیا جائے اور اندیشہ ہو کہ حلق کرانے کے بعد دسویں ذوالحجہ تک بال نہیں اُگ سکیں گے تو ایسے حالات میں عمرہ کرنے والے کے لیے بال کتروانا افضل ہے تاکہ حج کے موقع پر حلق ہو سکے۔ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جن حضرات نے عمرہ کیا تھا انہوں نے اس موقع پر بال چھوٹے کرائے تھے جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1728