وعن عائشة رضي الله عنها قالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وآله وسلم ذات يوم فقال: «هل عندكم شيء؟» قلنا: لا قال: «فإني إذا صائم» ثم أتانا يوما آخر فقلنا أهدي لنا حيس فقال: «أرينيه فلقد أصبحت صائما» فأكل. رواه مسلم.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ ”کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟“ ہم نے عرض کیا، نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اچھا تو میں روزہ سے ہوں“ اس کے بعد پھر ایک روز تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ حلوہ کا تحفہ ہمیں (کہیں سے) دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ذرا مجھے تو دکھاؤ صبح سے میں روزے سے تھا۔“(یہ فرما کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ تناول فرما لیا۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصيام/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصيام، باب جواز النافلة بنية من النهار قبل الزوال، حديث:1154.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 533
لغوی تشریح 533: فَأِنِّی أِذًا صَائِمٌ أِذًا پر تنوین ہے۔ اس حدیث سے یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ نفلی روزے کی نیت طلوعِ آفتاب کے بعد بھی ہو سکتی ہے۔ اور یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی سابقہ روایت میں نیت کا لزوم فرضی روزے کے لیے ہے، نفلی روزے کے لیے نہیں۔ حَیسٌ ”حا“ پر فتحہ اور ”یا“ ساکن ہے۔ جسے کھجور، گھی اور پنیر ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ أَرِینِیہِ أِرَاءَۃٌ سے امر کا صیغہ واحد مؤنث مخاطب ہے اور اس میں نون وقایہ کا ہے اور بعد کی ”یا“ یاے متکلم ہے جو فعل کا پہلے مفعول واقع ہو رہی ہے اور دوسرا مفعول ضمیر غائب ہے۔ ٘ فَأَکَلَ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرما لیا۔ یہ حدیث اس پر دلالت کررہی ہے کہ نفلی روزے دار بغیر کسی عذر کے روزہ افطار کر (توڑ) سکتا ہے۔
فوائد و مسائل 533: ➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نفلی روزے کی نیت طلوعِ فجر سے پہلے لازمی نہیں بلکہ طلوعِ آفتاب کے بعد بھی کی جا سکتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری ہے جبکہ نفلی روزے کی نیت زوال سے پہلے تک کی جا سکتی ہے۔ ➋ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہو رہاہے کہ نفلی روزہ بغیر کسی عذر کے توڑا جا سکتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ اور جمھور علماء کا یہی مذہب ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بلاعذر روزہ توڑنا جائز نہیں، اسے پورا کرنا ان کے نزدیک واجب ہے۔ ان کے نزدیک اگر افطار کر لیا تو اس کی قضا توڑنے والے پر واجب ہے۔ لیکن راجح اور صحیح مؤقف جمھور علماء کا ہے کہ نفلی روزہ توڑنے کا کفارہ نہیں، اگرچہ قصدًا ہی توڑا جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 533