وعنه رضي الله عنه أنه صلى الله عليه وآله وسلم صلى في زلزلة ست ركعات وأربع سجدات وقال:«هكذا صلاة الآيات» . رواه البيهقي وذكر الشافعي عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه مثله دون آخره.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ انہوں نے زلزلے کے موقع پر نماز چار سجدوں اور چھ رکوعوں سے پڑھی اور فرمایا کہ آیات الٰہی کی نماز اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اسے بیہقی نے روایت کیا ہے اور شافعی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اسی طرح کی روایت ذکر کی ہے البتہ اس میں روایت کے آخری الفاظ نہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: «أخرجه البهقي:3 /343، وحديث علي أخرجه الشافي وسنده ضعيف، فيه بلاغ الشافي، أي لم يذكر سنده.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 405
تخریج: «أخرجه البهقي:3 /343، وحديث علي أخرجه الشافي وسنده ضعيف، فيه بلاغ الشافي، أي لم يذكر سنده.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناگہانی حادثے اور ارضی و سماوی مصیبت کے نزول کی صورت میں فی الفور نماز پڑھنی چاہیے۔ اسے «صَلَاۃُ الْآیَاتِ» کہتے ہیں۔ 2. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصیبت اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے‘ غیر اللہ کی جانب متوجہ ہونا اور انھیں مصائب و آلام دور کرنے کا ذریعہ سمجھنا شرک ہے ‘ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اس کی بالکل بخشش نہیں‘ اس لیے مسلمانوں کو اس کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے‘ ایسا نہ ہو کہ تمام اعمال اکارت جائیں۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 405