الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
10. نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 338
وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم استخلف ابن أم مكتوم يؤم الناس وهو أعمى. رواه أحمد وأبو داود. ونحوه لابن حبان عن عائشة رضي الله عنها.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا۔ وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے جب کہ وہ نابینا تھے۔
اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسی طرح کی حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 338]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب أمامة الأعمي، حديث:595، وأحمد:3 /132، وحديث عائشة أخرجه ابن حبان(الإحسان):3 /287.»

   سنن أبي داوداستخلف ابن أم مكتوم على المدينة
   سنن أبي داوداستخلف ابن أم مكتوم يؤم الناس وهو أعمى
   بلوغ المراماستخلف ابن ام مكتوم يؤم الناس وهو اعمى
   مسندالحميديصوت أبي طلحة في الجيش خير من فئة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 338 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 338  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب أمامة الأعمي، حديث:595، وأحمد:3 /132، وحديث عائشة أخرجه ابن حبان(الإحسان):3 /287.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو اپنا نائب مقرر کرنا جائز ہے جو لوگوں کو نماز پڑھائے۔
2.دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ نابینے کی امامت درست اور جائز ہے۔
3. تیسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ نابینا دوسروں کی بہ نسبت علم شریعت کا زیادہ عالم ہو سکتا ہے۔
4. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افضل کی موجودگی میں دوسرا بھی نائب مقرر کیا جا سکتا ہے۔
5. یہ نابینے صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تھے‘ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی میں کئی دفعہ اپنا نائب مقرر فرمایا اور غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو انتظامی امور وغیرہ کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز کی امامت کے لیے مقرر فرمایا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 338   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 595  
´نابینا کی امامت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا، وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 595]
595۔ اردو حاشیہ:
نابینے شخص کی امامت بلا کراہت جائز ہے، بشرطیکہ اس میں صلاحیت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 595   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2931  
´اندھے کو حاکم بنانا درست ہے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2931]
فوائد ومسائل:
اسلام کے سوا باقی معاشرے بہت عرصہ تک نابیناؤں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی برتائو کرتے رہے۔
ان کو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے کا تو تصور تک نہیں تھا۔
اسلام نے نہ صرف ان کے حقوق باقی انسانوں کے برابر کئے بلکہ ان کو انتہائی زمہ داریاں دینے کا بھی آغاز کیا۔
ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری یعنی اذان دینا تو ہمہ وقت حاصل تھی۔
حالانکہ وہ اذان کے صحیح وقت کے تعین کےلئے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔
اذان صبح کے وقت لوگ ان کو بتاتے تھے کہ (أصحبت أصبحت) آپ نے صبح کر دی ہے، صبح کردی ہے۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ مدینے کا قائم مقام گورنر بھی بنایا۔
اس معاملے میں بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادایئگی کےلئے یقینا انھیں بروقت دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہوگی۔
اور دیکھا جائے تو ہر حاکم کو کسی نہ کسی صورت میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی کو ایک صورت میں کسی کو دوسری صورت میں نابینا آدمی اگر علم وعمل تقویٰ اور دانائی کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہو تو اسے حکومتی منصب دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ ایسا آدمی فیصلے کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔
کہ وہ افراد کے پہچاننے اور شخصیات کی تعین وغیرہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔
رسول اللہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔
اگر نابینا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے اور دوسروں سے کام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے مناسب ذمہ داری دینے میں کوئی قباحت نہیں، بلکہ اس قسم کے خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے ان کی اہلیت وصلاحیت کے مطابق کام لینا معاشرے کےلئے بہتر ہی ہے۔
مسلمان معاشروں میں ایسے افراد علم کی خدمت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔
البتہ غیر اسلامی معاشروں کے ساتھ اختلاط کے سبب ایسے افراد کے بارے میں نامناسب رویہ شروع ہوا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2931   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1236  
1236- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش کے تمام تیر نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھے اور وہ اپنے گھٹنوں کے بل جھک گئے اور یہ کہنے لگے: میرا وجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے ہے اور میری جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لشکر میں ابوطلحہ کی آواز ایک جماعت سے زیادہ بہتر ہے۔‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ایک جنگ میں مسلمانوں کا جھنڈا ان کے پاس تھا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1236]
فائدہ:
اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی جرٱت و دلیری کا ذکر ہے کہ وہ کس طرح اپنی جان کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر پروانہیں کرتے، یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک جھنڈا بھی تھا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1234