تخریج: «أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا طول الإمام وكان للرجل حاجة فخرج فصلي، حديث:701، ومسلم، الصلاة، باب القراءة في العشاء، حديث:465.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ امام کو قراء ت اتنی لمبی اور طویل نہیں کرنی چاہیے کہ نمازی تنگ آجائیں اور جماعت سے گریز کریں مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قراء ت اتنی کم ہو کہ مقصد قراء ت ہی فوت ہو جائے بلکہ ادائیگی ٔارکان اور تلاوت کلام مجید میں اعتدال اور توازن ہونا چاہیے اور مسنون طریقے سے نماز پڑھانی چاہیے۔
2.طویل قراء ت بھی جائز ہے جبکہ نمازی متحمل ہوں۔
3. حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی نماز کا واقعہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک روز حضرت معاذ رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز پڑھا رہے تھے اور انھوں نے قراء ت معمول سے زیادہ لمبی کر دی۔
ایک راہ چلتا مسافر جس کے پاس دو اونٹنیاں بھی تھیں‘ وہ اپنی اونٹنیاں باہر چھوڑ کر نماز میں شامل ہوگیا۔
جب اس نے دیکھا کہ قراء ت بہت طویل ہے تو اس نے نماز توڑ کر الگ بغیر جماعت کے نماز پڑھی اور اپنی راہ لی۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ منافق ہے۔
وہ شخص نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی شکایت کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ سے نصیحت فرمائی۔
(صحیح البخاري‘ الأدب‘ باب من لم یر إکفارَ من قال ذلک متأولا أوجاھلا‘ حدیث:۶۱۰۶) فتنے میں مبتلا کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدیوں میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں: مثلاً بوڑھے‘ کمزور و ناتواں‘ ضرورت مند اور تھکے ماندے وغیرہ‘ تو ان سب کا لحاظ رکھنا امام کے لیے ضروری ہے‘ ایسا نہ ہو کہ لوگ اکتا کر نماز باجماعت سے گریز کرنے لگیں۔
دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرض نماز پہلے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں پڑھ کر پھر جا کر محلے کی مسجد میں نمازیوں کو فرض نماز پڑھاتے تھے۔
(صحیح البخاري‘ الأذان‘ باب إذا طوّل الإمام وکان للرجل حاجۃ… حدیث: ۷۰۱) عبدالرزاق‘ شافعی اور طحاوی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ یہ بیان کیا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ
(دوسری) نماز نفل ہوتی تھی۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(إرواء الغلیل:۱ /۳۲۸.۳۳۱‘ حدیث: ۲۹۵) 4. ایک مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ امام اور مقتدی کی نیت اگر مختلف ہو تب بھی دونوں کی نماز صحیح ہوگی‘ مثلاً: امام کی نیت نفل پڑھنے کی ہے اور مقتدی کی فرض کی‘ یا امام نماز ظہر اور مقتدی نماز عصر کی نیت کرے یا اس کے برعکس تو دونوں صورتوں میں دونوں کی نماز جائز ہوگی۔
امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
5. اس حدیث سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ مقتدی اگر امام کا کوئی فعل ناپسند کرتا ہے اور نماز توڑ کر الگ اسی جگہ اپنی نماز ادا کر لیتا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی۔
اگر نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور تنبیہ فرماتے کہ آئندہ ایسا مت کرنا اور نماز بھی دوبارہ پڑھو۔
چونکہ ایسا نہیں فرمایا‘ اس لیے یہ جائز ہے۔