تخریج: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب فضل السجود والحث عليه، حديث:489.»
تشریح:
1. اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تیری مطلوب چیز
(جنت) تجھے عطا کر دے‘ تم بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے دعا کرو لیکن یاد رکھو یہ بڑی عظیم طلب و چاہت ہے‘ لہٰذا نفل نماز کثرت سے پڑھا کرو تاکہ میری دعا اپنے مقام پر پہنچ کر قبول ہو جائے۔
اور اسے اعانت کہا گیا ہے۔
2. اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے سے مراد نفل نماز لی ہے۔
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سجدے کو سارے ارکان نماز پر فضیلت حاصل ہے۔
سجدہ تقرب الٰہی کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔
3. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرب الٰہی اور نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے کثرت سے نوافل ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
افسوس ان لوگوں پر جو اتباع سنت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر نوافل سے اتنی رغبت نہیں جتنی تاکید ان کے بارے میں معلوم ہوتی ہے‘ اور کچھ لوگ تو زبانی عاشق رسول ہونے کے دعویدار ہیں مگر نوافل تو کجا فرائض بھی نہیں پڑھتے‘ رہتے پھر بھی وہ عاشق رسول ہی ہیں بلکہ نادان اور بے علم و جاہل لوگوں نے ان کو رتبۂ ولایت پر بٹھا رکھا ہے جنھوں نے کبھی نماز پڑھ کر نہیں دیکھی۔
راویٔ حدیث: «حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ» ابوفر اس ان کی کنیت ہے۔
اسلم قبیلہ سے تھے‘ اس لیے اسلمی کہلائے۔
اصحاب صفہ میں سے تھے اور مدینہ کے رہنے والے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔
حضر و سفر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے۔
۶۳ ہجری میں وفات پائی۔