تخریج: «أخرجه البيهقي:2 /306، وسيأتي، حديث:352* سفيان الثوري وأبوالزبيرعنعنا.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے۔
بنابریں اگر کسی امر کی وجہ سے ایسا کرنا مشکل ہو تو پھر نمازی کو اشارے پر ہی قناعت کرنی چاہیے‘ البتہ سجدے اور رکوع کے اشارے میں فرق کیا جائے۔
سجدے کا اشارہ ذرا نیچے ہونا چاہیے بہ نسبت رکوع کے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا تعلق اس کے خالق و مالک سے کسی صورت اور کسی لمحہ بھی منقطع نہیں ہونا چاہیے۔
ہر آن اس کی یاد دل و دماغ میں رچی بسی رہنی چاہیے۔
یہی مقام عبدیت ہے۔