الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
7. باب صفة الصلاة
7. نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 217
وعن وائل بن حجر قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره. أخرجه ابن خزيمة.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لئے۔ (ابن خزیمہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة:1 /243، حديث:479، وسنده ضعيف من أجل عنعنة الثوري، وللحديث شواهد كثيرة عند أحمد:5 /226 وغيره.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 217 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 217  
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر دست بستہ کھڑا ہونا مسنون ہے اور ہاتھ چھوڑنا غیر مسنون۔ شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے خلاف کوئی بھی عمل ثابت نہیں۔ جمہور صحابہ اور تابعین کا بھی یہی قول ہے۔ ابن المنذر وغیرہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے سوا دوسرا کوئی قول نقل نہیں کیا بلکہ موطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے، تو پھر روایت پر عمل کرنا چاہئیے۔ اس کے برعکس امام مالک رحمہ اللہ سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے، وہ شاذ ہے، صحیح نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ [التمهيد: 70-80/ 20]
➋ اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں، سینے پر یا زیر ناف؟ بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل و فاعل ہیں، مگر زیر ناف ہاتھ باندھنے والی حدیث ضعیف ہے، صحیح نہیں۔ مذکورہ بالا حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے جس کی تائید مسند احمد میں سیدنا ہلب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھے۔ [مسند أحمد: 226/5] اور ایک روایت میں فوق السرۃ کے الفاظ بھی منقول ہیں۔ تحت السرۃ کے مقابلے میں فوق السرۃ والی روایت سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور قوی ہے۔ اور اہلحدیث علمائے کرام کے نزدیک قوی دلائل کی روشنی میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہی راجح ہے اور تحت السرۃ یعنی زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، قابل اعتبار نہیں۔ دیکھیے: [سنن ابي داؤد، باب وصع اليميني على اليسري فى الصلاة، حديث: 756-758]

راوی حدیث: (سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوہنیدہ یا ابوہندہ ہے۔ حجر کی حا پر ضمہ اور جیم ساکن ہے۔ جلیل القدر صحابی ہیں۔ ان کے والد حضرموت کے بادشاہوں میں سے تھے۔ جب یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنے وفد کے ساتھ حاضر ہوئے تو آپ نے (ان کے اعزاز میں) ان کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں برکت کی دعا فرمائی۔ حضرموت کے قبائل پر ان کو عامل مقرر فرمایا۔ کوفہ میں سکونت پذیر ہوئے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 217