وعنها قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يسترني وأنا أنظر إلى الحبشة يلعبون في المسجد... الحديث. متفق عليه
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے پردہ بنے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کے کھیل کو دیکھ رہی تھی جو وہ مسجد میں کھیل رہے تھے۔“ یہ طویل حدیث کا جز ہے۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 203]
تخریج الحدیث: «أجرجه البخاري، الصلاة، باب أصحاب الحراب في المسجد، حديث:454، ومسلم، صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب، حديث:892.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 203
203 لغوی تشریح: «يَسْتُرُنِ» آپ نے مجھے چھپایا ہوا تھا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے دروازے پر کھڑے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑی ہو کر حبشیوں کا کھیل دیکھ رہی تھیں۔ «اَلْحَبَشَةِ» «حبشي» کی جمع ہے یعنی ملک حبش کے باشندے۔ «يَلْعَبُونَ» گرائمر میں یہ جملہ ”حبشہ“ سے حال واقع ہو رہا ہے۔ روایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا کھیل نیزے اور ڈھال کے ساتھ تھا اور عید کا دن تھا۔ اس قسم کا کھیل جنگی مشق کی قسم میں سے ہے۔ اس قسم کی جنگی مشق کا مظاہرہ مسجد میں جائز ہے۔ اس سے مطلقاً ہر قسم کے کھیل کا استدلال درست نہیں۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خوشی کے دن جنگی کرتب کا مظاہرہ مسجد میں جائز ہے۔ ➋ عورت اجنبی مرد کو مجمل طور پر دیکھ سکتی ہے مگر تفصیل سے نہیں، یعنی اجنبی مرد کے اعضائے جسم کا بغور ملاحظہ نہیں کر سکتی۔ ایسے موقع پر مقصود کھیل دیکھنا ہوتا ہے نہ کہ کھلاڑی، نیز ضروری ہے کہ مرد کا جسم مستور ہو ➌ دور حاضر میں عموماً کھیلنے والوں کے جسم نیم برہنہ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری شرعض رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں لہٰذا ان سے اجتناب ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 203