وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل: لا ردها الله عليك، فإن المساجد لم تبن لهذا» . رواه مسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ جو کوئی یہ سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی گمشدہ چیز تلاش کر رہا ہے تو سننے والا اسے یہ کہے کہ اللہ کرے وہ چیز تمہیں واپس نہ ملے۔ مسجدیں اس مقصد کے لئے تو نہیں بنائی گئی ہیں۔ (مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 199]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب النهي عن نشد الضالة في المسجد...، حديث:568.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 199
� لغوی تشریح: «يَنْشُدُ»”یا“ پر فتحہ اور ”شین“ پر ضمہ۔ باب «نصر ينصر» کے وزن پر ہے۔ تلاش و طلب کرنا، یا تلاش کرنے کے لئے اونچی آواز سے اعلان کرنا۔ «ضَالَّةً» گم شدہ حیوان۔ اصلی معنی تو یہی ہیں، پھر غیر حیوان کو بھی اسی پر قیاس کر لیا جاتا ہے۔ «لَا رَدَّهَا اللهُ عَلَيْكَ» بظاہر تو اس میں لائے نافیہ معلوم ہوتا ہے اور نفی فعل پر وارد ہوئی ہے۔ دراصل یہ بددعا ہے گم شدہ چیز کے تلاش کرنے والے کے لیے کہ اللہ کرے وہ چیز جسے وہ تلاش کر رہا ہے اسے نہ ملے کیونکہ وہ مسجد میں ایسے کام کا ارتکا ب کر رہا ہے جو اس مقام پر کرنا جائز نہیں ہے۔ «لَمْ تُبْنَ» صیغہ مجہول ہے یعنی مساجد کی تعمیر اس غرض کے لیے نہیں کی گئی۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث میں جو زجر و توضیح ہے اس سے مقصود لوگوں کو اس بات سے باز رکھنا ہے کہ باہر کہیں اس کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ مسجد میں آ کر اس کی تلاش شروع کر دے۔ یہ آداب مسجد کے خلاف ہے۔ ➋ آج کل مسجدوں میں جو اعلانات کی بھرمار ہے وہ بھی اصلاح طلب ہے، البتہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں سے دریافت کرنے کی گنجائش ہے۔ ➌ اس حدیث میں جانور کا بطور خاص ذکر ہے کیونکہ جانور مسجدوں میں آ کر تو گم نہیں ہوتے، پھر ان کی تلاش یہاں کیا معنی رکھتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 199