وعن أبي ذر الغفاري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «يقطع صلاة الرجل المسلم إذا لم يكن بين يديه مثل مؤخرة الرحل؛ المرأة والحمار والكلب الأسود» . الحديث. وفيه: «الكلب الأسود شيطان» . أخرجه مسلم. وله عن أبي هريرة نحوه دون الكلب. ولأبي داود والنسائي عن ابن عباس رضي الله عنهما نحوه دون آخره، وقيد المرأة بالحائض.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مسلمان مرد کی نماز کو جب کہ اس کے آگے پالان کے پچھلے حصہ کے برابر سترہ نہ ہو عورت، گدھا اور کالا کتا توڑ دیتا ہے۔ “ اس حدیث میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں کہ ” کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔ “(مسلم) اور اس میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے مگر اس میں کتے کا ذکر نہیں ہے۔ نیز ابوداؤد اور نسائی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے مگر اس میں حدیث کا آخری حصہ نہیں ہے اور عورت کے متعلق حائضہ ہونے کی قید لگائی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 183]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب قدر ما يستر المصلي، حديث:510، وحديث أبي هريرة أخرجه مسلم، الصلاة، حديث: 511، وحديث ابن عباس أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:703، والنسائي، الصلاة، حديث:752، وسنده صحيح.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 183
� لغوی تشریح: «يَقْطَعُ صَلَاةَ الْمَرْءِ» اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کی برکت کم ہو جاتی ہے۔ «اَلْمَرْأَةُ، يَقْطَعُ» کا فاعل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کا نمازی کے سامنے سے گزرنا نماز کو توڑ دیتا ہے۔ «وَفِيهِ» یعنی اس حدیث کے آخر میں ہے۔ «اَلْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ»”کالا کتا شیطان ہے۔“ کالے کتے کو شیطان قرار دینے کی وجہ اس کی خباثت اور انتہائی برے منظر والا ہونا ہے۔ «وَلَهُ» میں ”ه“ ضمیر صحیح مسلم کی طرف راجع ہے۔ «عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوُهُ دُونَ الْكَلْبِ» اس عبارت سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں «كلب» کا لفظ نہیں ہے، اس میں صرف عورت اور گدھے کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں لفظ «كلب» موجود ہے۔ تو پھر «دُونَ الْكَلْبِ» کے معنی مصنف کی نظر میں یہ ہیں کہ اس روایت میں کتے کا ذکر ہے لیکن اس کی صفت کا ذکر نہیں ہے۔ یعنی «اَلْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ» کے الفاظ نہیں ہیں۔ «ولأبي داوُد ..... نحوه» ابوداود اور نسایی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح مروی ہے۔ «دُون آخِرِه» سوائے آخری حصے کے، یعنی ابوذر کی روایت کے آخر میں جو «اَلْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ» ہے وہ ابوداود اور نسائی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں نہیں ہے۔ «نَحْوُهُ» اور «آخِرِهٖ» دونوں میں ضمیر مجرور کا مرجع سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے باوجود یہ کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت بعید ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت قریب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس کتاب میں بطور اصل ذکر ہوئی ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث متابعت کے طور پر ہے، پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا آخری حصہ مذکور نہیں ہے کہ جس کی طرف ضمیر لوٹے۔ «قَيَّد» تقیید سے ماضی کا صیغہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے: ”بالغ عورت اور کتا نماز کو توڑ دیتے ہیں۔“[عون المعبود مطبوعة هند: 259/1]
فوائد و مسائل: ➊ سترے کی مشروعیت کی حکمت یہ ہے کہ نمازی کے خشوع و خضوع میں فرق نہ پڑے اور شیطان وسوسے ڈال کر نماز کا ثواب کم یا ضائع نہ کر دے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترے کو شیطان سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر نمازی کے آگے سترہ موجود ہو تو سترے سے ماوراء گزرنے والا کوئی بھی انسان یا حیوان انسان کے خشوع و خضوع کو کم کرتا ہے نہ ہی اس سے نماز باطل ہوتی ہے۔ اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے۔ اور یہ بات بھی متفق علیہ ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے، ہر شخص کو نماز باجماعت میں الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سترہ رکھنے کا حکم دیا ہے، تاہم صحت نماز کے لیے سترہ شرط نہیں ہے، اگرچہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز کے خشوع و خضوع اور ثواب میں کمی آ جاتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی نے سترہ قائم نہ کیا یا اس کے اور سترے کے درمیان سے عورت، گدھا یا کالا کتا گزر گیا تو نماز باطل ہو جائے گی۔ اس حدیث میں قطع صلاۃ کے مفہوم کے تعین میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، اہل علم کے ایک گروہ نے قطع صلاۃ کے اس حکم کو منسوخ قرار دیا ہے اور حدیث «لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةُ شَيْءٌ»”نماز کو کوئی چیز قطع نہیں کرتی۔“[سنن أبى داود، حديث: 719] کو اس کا ناسخ کہا ہے۔ لیکن اس کا دعوائے نسخ بلا دلیل ہے جیسا کہ امام نووی اور ابن حجر نے کہا ہے۔ [المجمع: 251/3] شیخ البانی رحمہ اللہ نے حدیث «لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةُ شَيْءٌ» کو ضعیف قرار دیا ہے اور قطع صلاۃ والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا نسخ تو تب ثابت ہو گا جب دونوں روایات کو صحیح تسلیم کریں۔ لیکن اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی نسخ کی بجائے دونوں حدیثوں کے مابین تطبیق اور جمع کی صورت نکالیں گے جیسا کہ معروف قاعدہ ہے کہ نصوص کے تعارض کی صورت میں اگر جمع ممکن ہو تو سب سے پہلے جمع کریں گے کہ مذکورہ حدیث کے منطوق کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم کہیں گے کہ ان تین چیزوں کا حصر ہے کہ ان سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور باقی سے خشوع وخضوع میں فرق آ جاتا ہے۔ شیخ أحمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے [محلي ابن حزم 14/1] کے حاشیے میں نسخ والا موقف اختیار کیا ہے لیکن جن روایات کو بنیاد بنایا ہے وہ ضعیف ہیں۔ ➋ اہل علم کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ مذکورہ حدیث میں قطع سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے اور نماز کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ ➌ اہل علم کے تیسرے گروہ نے حدیث کا ظاہری مفہوم مراد لیا کہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نماز کی برکت تو سترہ نہ ہونے کی صورت میں مرد کے گزرنے سے بھی ختم ہو جاتی ہے اور خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر نمازی کے آگے سے گزرنے والے مرد کو سختی سے روکنے اور اسے گناہ گار کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، لہٰذا ان تین چیزوں کا بطور خاص ذکر کرنا اپنے اندر ایک زائد مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اور دیگر چیزوں کے گزرنے سے خشوع و خضوع میں کمی آ جاتی ہے، ورنہ یہ تحصیل حاصل ہو گی اور حصر بے معنی ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ممکن نہیں۔ پھر اس موقف کی تائید سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے جنہیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے [الصحيحة] میں ذکر کیا ہے، وہ الفاظ یہ ہیں: «تُعَادُ الصَّلَاةُ مِنْ مَمَرِّ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْْكَلْبُ الْأَسْوَدِ»”گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے کے گزرنے سے نماز لوٹائی جائے۔“[صحيح ابن خزيمة و ابن حبان بحوالة الصحيحة: 959/7، حديث: 3323] یہی موقف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سیدنا انس، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ تابعین میں سے حسن بصری، ابوالاحوص رحمہما اللہ اور ائمہ میں سے امام احمد رحمہ اللہ اور متأخرین میں سے امام شوکانی اور شیخ البانی رحمہما اللہ ان مذکورہ تین چیزوں کے آگے سے گزرنے پر نماز کے باطل ہونے کا قائل ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: [أصل صفة صلاة النبى: 130/1، ومحلٰي ابن حزم: 8/4، وفتاويٰ الدين الخالص: 581/3] ➍ یاد رہے عورت سے مراد بالغ عورت ہے جیسا کہ دوسری روایت میں صراحت ہے۔ واللہ أعلم۔ ➎ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہی تین چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز کیوں باطل ہوتی ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ اور حکمت یہ ہے کہ شارع علیہ السلام نے انھی تین چیزوں کو خاص کیا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ تینوں چیزیں وجود شیطان اور اس کی فتنہ انگیزی کی زیادہ گمان کی جاتی ہیں، دوسری چیزوں کی بہ نسبت ان تینوں سے نماز کے فاسد ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ امام ترمذی نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت نقل کی ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، چنانچہ جب یہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف جھانکتا ہے۔ [جامع الترمذي، الرضاع، باب استشراف الشيطان المرأة إذا خرجت، حديث: 1173] اور صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ عورت آتی ہے تو بصورت شیطان آتی ہے اور جب واپس جاتی ہے تب بھی شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ [صحيح مسلم، النكا ح، باب ندب من رأي امرأة۔۔۔، حديث: 1403] اور گدھے کی آواز کے متعلق وارد ہے کہ گدھا شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے۔ [سنن أبى داود، الأدب، باب فى الديك والبهائم، حديث: 5102] اور جہاں تک کتے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تو حدیث میں «اَلْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ» کی وضاحت موجود ہے۔ مطلق کتے کی خباثت بھی جانی پہچانی ہے کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ [صحيح مسلم، اللباس والزينة، باب تحريم تصوير صورة الحيوان۔۔۔، حديث: 2106] اور جس شخص نے ایسا کتا پالا جس کی شرع میں اجازت نہ ہو تو اس نے ہر روز اپنے اجر و ثواب میں سے دو قیراط کی کمی کر لی۔ [صحيح البخاري، الذبائح والصيد، باب من اقتني كلبًا ليس بكلب صيد أو ماشية، حديث: 5480۔ 5482] «هذا ما عندنا والله أعلم»
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 183
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 703
´کن چیزوں کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں (شعبہ نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے): ”نماز حائضہ عورت اور کتا (مصلی کے سامنے گزرنے) سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید، ہشام اور ہمام نے قتادہ سے، قتادہ نے جابر بن زید سے، جابر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً یعنی ان کا اپنا قول نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 703]
703۔ اردو حاشیہ: نماز ٹوٹنے کا مفہوم بعض محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ نمازی کے خشوع و خضوع میں فرق آ جاتا ہے اور اس کی برکت جاتی رہتی ہے۔ جبکہ اما م احمد، امام ابن القیم رحمها اللہ اور بعض دوسرے ائمہ نے ظاہری مفہوم مراد لیا ہے کہ نماز باطل ہو جاتی ہے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحہ میں نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں: «تعاد الصلاة من ممرالحمار والمراة والكلب الاسود»”گدھے، عورت اور سیاہ فام گزرنے پر نماز لوٹائی جائے۔“[الصحيحه 7؍959، حديث 3323]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 703
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 704
´کن چیزوں کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں، عکرمہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: ”جب تم میں سے کوئی شخص بغیر سترہ کے نماز پڑھے تو اس کی نماز کتا، گدھا، سور، یہودی، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے باطل ہو جاتی ہے، البتہ اگر یہ ایک پتھر کی مار کی دوری سے گزریں تو نماز ہو جائے گی۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کے سلسلے میں میرے دل میں کچھ کھٹک اور شبہ ہے، میں اس حدیث کے متعلق ابراہیم اور دوسرے لوگوں سے مذاکرہ کرتا یعنی پوچھتا تھا کہ کیا معاذ کے علاوہ کسی اور نے بھی یہ حدیث ہشام سے روایت کی ہے، تو کسی نے مجھے اس کا جواب نہیں دیا اور کسی کو نہیں معلوم تھا کہ اسے ہشام سے کسی اور نے بھی روایت کیا ہے یا نہیں، اور نہ ہی میں نے کسی کو اسے ہشام سے روایت کرتے دیکھا (سوائے معاذ کے)، میرا خیال ہے کہ یہ ابن ابی سمینہ (یعنی بنی ہاشم کے آزاد کردہ غلام محمد بن اسماعیل بصریٰ) کا وہم ہے، اس میں مجوسی کا ذکر منکر ہے، اور اس میں پتھر کی مار کی دوری، اور خنزیر کا ذکر ہے، اس میں بھی نکارت ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث محمد بن اسماعیل بن سمینہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں سنی، اور میرا خیال ہے کہ انہیں وہم ہوا ہے، کیونکہ وہ ہم سے اپنے حافظے سے حدیثیں بیان کیا کرتے تھے [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 704]
704۔ اردو حاشیہ: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھر پھینکنے کے فاصلے کے بقدر، جگہ چھوڑ کر، نماز کے آگے سے گزرنا جائز ہے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں۔ نمازی کے آگے اگر سترہ نہ ہو، تو کتنے فاصلے سے گزرنے والا گزر سکتا ہے؟ اس کی بابت کسی حدیث سے کوئی واضح صراحت نہیں ملتی۔ تاہم بعض علماء نے احتیاط کے طور پر اس کا اندازہ تین صف بیان کیا ہے۔ اس سے زیادہ اس کے بقدر فاصلے سے گزرنا جائز ہو گا۔ «والله اعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 704