الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1288
وعنه رضي الله عنه أن رجلا قال: يا رسول الله أوصيني قال: «لا تغضب» ‏‏‏‏ فردد مرارا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال: «‏‏‏‏لا تغضب» ‏‏‏‏ أخرجه البخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ اس نے یہی سوال چند مرتبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی جواب ارشاد فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1288]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب، حديث:6116.»

   صحيح البخاريلا تغضب فردد مرارا قال لا تغضب
   جامع الترمذيلا تغضب فردد ذلك مرارا كل ذلك يقول لا تغضب
   بلوغ المراملا تغضب ‏‏‏‏ فردد مرارا

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1288 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1288  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب الحذر من الغضب، حديث:6116.»
تشریح:
اس حدیث میں غصے سے بچنے کی تاکید ہے۔
بہت سے ظالمانہ کام انسان غصے میں کر گزرتا ہے اور بعد میں اکثر نادم و پریشان ہوتا ہے۔
علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں جمع کر دی گئی ہیں کیونکہ غصے کی حالت میں انسان نرمی اور رحم دلی کی صفات سے خالی ہو جاتا ہے‘ قطع رحمی کا سبب بنتا ہے اور دوسرے مسلمان کو ایذا اور تکلیف پہنچانے کے در پے ہو جاتا ہے۔
اور یہ امور انسان کی دنیا و آخرت میں بربادی کا باعث بنتے ہیں۔
اور اگروہ ان سے اجتناب کرے تو یہی امور دنیا و آخرت میں فلاح و فوز کا سبب بنتے ہیں۔
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ غصے سے بچنے سے مراد ان اسباب سے اجتناب کرنا ہے جو غصے کا باعث بنتے ہیں کیونکہ غصہ تو ایک طبعی اور فطری معاملہ ہے اور انھی اسباب میں سے ایک سبب تکبر بھی ہے۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے مزاج کے پیش نظر فرمایا کہ غصہ نہ کیا کر کیونکہ وہ بات بات پر غضب ناک ہو جاتا تھا۔
مسند احمد میں ہے کہ وہ سوال کرنے والے جاریہ بن قدامہ تھے۔
(مسند أحمد: ۳ /۴۸۴) اور ایک حدیث میں ہے کہ وہ سائل سفیان بن عبداللہ ثقفی تھے۔
اس کی بابت مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۵ /۳۳۰.۳۳۳)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1288   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1288  
تخریج:
[بخاري 6116 ]
فوائد:
یہ سوال کرنے والا کون تھا؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال مختلف وقتوں میں کئی صحابہ نے کیا اور آپ نے انہیں یہی جواب دیا فتح الباری میں جاریہ بن قدامہ، سفیان بن عبداللہ ثقفی، ابوالدرداء اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے یہ سوال اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جواب مذکور ہے۔ ان میں سے بعض نے یہ کہہ کر سوال کیا کہ آپ مجھے تھوڑی سی بات بتا دیجئے جس سے مجھے نفع ہو اور بعض نے کہا: مجھے ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ نے میں جواب دیا کہ غصہ مت کر۔ تمام روایات کی تفصیل کے لئے دیکھئے: [فتح الباري حديث 6116]
طالب وصیت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب
حقیقت یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کے جواب میں اور وصیتیں بھی فرمائی ہیں۔
بعض سے فرمایا:
«قل ربي الله ثم استقم»
تو کہہ میرا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہ۔ [صحيح الترمذي - الزهد 47]
بعض سے فرمایا:
«لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله»
تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے۔ [ترمذي 458/5 اور صحيح ابن ماجه 317/2]
اہل علم فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک ماہر طبیب ہر مریض کے مزاح اور بیماری کو مدنظر رکھ کر علاج اور غذا تجویز کرتا ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سب سے بڑے روحانی معالج تھے ہر شخص کو اسی عمل کی وصیت فرماتے جو اس کے لئے ضروری اور اس کے حالات کے مطابق ہوتا۔ معلوم ہوتا ہے ان حضرات میں غصہ زیادہ تھا اس لئے آپ نے انہیں بار بار سوال کے باوجود غصہ سے اجتناب کی ہی وصیت فرمائی۔ چونکہ تقریباً تمام لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ غصے میں آ کر اعتدال سے نکل جاتے ہیں اس لئے آپ کی وصیت تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔
غصہ کے نقصانات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غصے سے بچنے کا حکم دے کر بے شمار قباحتوں سے بچانے کا اہتمام فرمایا کیونکہ غصے کی آگ سے انسان کا چہرہ اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، ہاتھ پاؤں کانپنے لگتے ہیں بلکہ شکل ہی بدل جاتی ہے غم کے ساتھ ہی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے آدمی وحشیانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے مارنے کو دوڑتا ہے قتل تک سے دریغ نہیں کرتا، بس نہ چلے تو اپنے ہی کپڑے پھاڑ دیتا ہے، اپنے آپ کو ہی مارنا شروع کر دیتا ہے زبان سے واہی تباہی بکنے لگتا ہے، برتن توڑ دیتا ہے، کبھی کسی بے گناہ کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔ غرض ایسے ایسے کام کرتا ہے کہ اگر ہوش کی حالت میں اپنے آپ کو دیکھے تو شرمندہ ہو جائے۔ یہ تو ظاہری نقصان تھا دل کا نقصان اس سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ غصے کی وجہ سے دل بغض، کینے، حسد اور آتش انتقام سے بھرا رہتا ہے سکون اور اطمینان رخصت ہو جاتے ہیں انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر آجاتا ہے اور دوستوں، رشتہ داروں اور اہل ایمان بھائیوں سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اب آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حکیمانہ وصیت پر غور فرمائیں کہ آپ نے اس چھوٹے سے جملے میں کتنی حکمت کی باتیں سمو دی ہیں۔ اس پر عمل کرنے سے انسان کو کتنے فائدے حاصل ہوتے ہیں اور وہ کتنے نقصانات سے محفوظ رہتا ہے۔
غصہ مت کر مطلب؟
ظاہر ہے کہ غصہ ایک فطری چیز ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ غصہ نہ آئے بلکہ اللہ کے دین کی خاطر غصے ہو نا قابل تعریف ہے اور اس سے جذبہ جہاد پروان چڑھتا ہے۔ اس لئے غصہ مت کر کا مطلب یہ ہے کہ جہاں غصے ہونا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں وہاں غصہ مت کرو۔
ایسے مقامات پر غصہ مت کرو کی دو حالتیں ہیں۔
ایک غصہ آنے سے پہلے دوسرے غصہ آنے کے بعد۔
غصہ آنے سے پہلے «لَا تَغْضَبْ» کا مطلب یہ ہے کہ کوشش کرو غصہ نہ آئے حتیٰ کہ غصہ نہ کرنے کی عادت بن جائے۔ اس کے لئے وہ اسباب اختیار کرنا ہوں گے جن سے آدمی حسن اخلاق کا مالک بن جاتا ہے۔ مثلاً بردباری، حیا، سوچ سمجھ کر کام کرنا، زیادتی برداشت کرنا، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، عفو درگزر، غصہ کو پی جانا اور ہر ایک کو کھلے چہرے اور خندہ پیشانی سے ملنا۔ جب ان چیزوں کی عادت ہو جائے گی تو غم کے موقعہ پر آدمی اس عادت کی وجہ سے غصے میں آنے سے بچ جائے گا۔
غصہ آ جانے کے بعد «لَا تَغْضَبْ» کا مطلب یہ ہے کہ غصے کے کہنے پر عمل مت کرو۔
ابن حبان رحمہ الله نے یہ حدیث روایت کرنے کے بعد فرمایا کہ غصے میں آنے کے بعد کوئی ایسا کام مت کرو جس سے تمہیں منع کیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ غصے پر قابو پانے کی کوشش کرو اور اس کے کہنے میں آ کر اللہ کی نافرمانی مت کرو کیونکہ اصل پہلوان اور طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کا کوئی کام نہیں کرتا۔
جب غصہ آ جائے تو اسے دور کرنے کا طریقہ کیا ہے اس کے لئے دیکھئے: بلوغ المرام کی حدیث 1396/2 کی تشریح۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 177   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2020  
´زیادہ غصہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں، آپ نے فرمایا: غصہ مت کرو، وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار کہتے رہے غصہ مت کرو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2020]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے،
لیکن غصہ پر قابو پالینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے،
نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیے،
چنانچہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس آدمی کے متعدد بارسوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2020   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6116  
6116. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کی: آپ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کر۔ اس نے بار بار اپنے ساوال کو دہرایا لیکن آپ یہی جواب دیتے رہے۔ غصے میں آیا نہ کر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6116]
حدیث حاشیہ:
شاید یہ شخص بڑا غصہ والا ہو گا۔
تو اس کی یہی نصیحت سب پر مقدم کی پس حسب حال نصیحت کرنا سنت نبوی ہے جیسا کہ ہر حکیم پر فرض ہے کہ مرض کے حسب حال دوا تجویز کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6116   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6116  
6116. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے عرض کی: آپ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپ نے فرمایا: غصہ نہ کیا کر۔ اس نے بار بار اپنے ساوال کو دہرایا لیکن آپ یہی جواب دیتے رہے۔ غصے میں آیا نہ کر۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6116]
حدیث حاشیہ:
(1)
تجربہ کار طبیب وہ ہوتا ہے جو مرض کی تشخیص کر کے دوا تجویز کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تشخیص یہ کہ وہ بڑا غصے رکھنے والا آدمی ہے اور اس سے بہت روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں، اس لیے آپ نے فرمایا:
غصے نہ ہوا کر۔
' (2)
بعض اہل علم نے یہ معنی کیے ہیں کہ غصے کے اسباب سے بچنے کی کوشش کیا کر اور وہ امور اختیار نہ کیا کر جو غصے کا باعث ہیں کیونکہ غصہ تو ایک فطری چیز ہے، اسے بالکل ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غصہ اور غصے کے اسباب چھوڑ دینے کی وصیت فرمائی۔
(فتح الباري: 639/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6116