الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1285
وعن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس بندے کو حاکم بنا کر رعیت اس کے سپرد کر دی جائے اگر اسے ایسی حالت میں موت آئے کہ رعیت و عوام میں خیانت کا ارتکاب کرتا رہا ہو تو ایسے حاکم پر اللہ تعالیٰ اپنی جنت حرام کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1285]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب من استرعي رعية فلم ينصح، حديث:7150، ومسلم، الإيمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعيته النار، حديث:142.»

   صحيح البخاريما من وال يلي رعية من المسلمين فيموت وهو غاش لهم إلا حرم الله عليه الجنة
   صحيح البخاريما من عبد استرعاه الله رعية فلم يحطها بنصيحة إلا لم يجد رائحة الجنة
   صحيح مسلملا يسترعي الله عبدا رعية يموت حين يموت وهو غاش لها إلا حرم الله عليه الجنة قال ألا كنت حدثتني هذا قبل اليوم قال ما حدثتك أو لم أكن لأحدثك
   صحيح مسلمما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة
   صحيح مسلمما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة
   بلوغ المرامما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1285 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1285  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب من استرعي رعية فلم ينصح، حديث:7150، ومسلم، الإيمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعيته النار، حديث:142.»
تشریح:
1. سربراہ مملکت اور امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے‘ ہر ایک کو انصاف مہیا کرے‘ کسی سے ناانصافی نہ کرے اور نہ دوسرے سے ناانصافی ہونے دے‘ ان کے کاموں میں آسانی اور نرمی پیدا کرے‘ انھیں مشکلات اور مشقتوں میں نہ ڈالے‘ عوام کے معمولی قصور پر مؤاخذہ نہ کرے‘ درگزر اور معافی کا رویہ اپنائے‘ انھیں حتی الوسع ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرے‘ ان کے مال پر ہاتھ صاف نہ کرے‘ان کی عزت و ناموس پر ڈاکہ نہ ڈالے‘ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کا جینا دشوار نہ کرے اور انھیں چوروں‘ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے تحفظ مہیا کرے۔
او ر اگر وہ اس کے برعکس عوام کا خون چوستا ہے تو ایسے حاکموں کے لیے اس حدیث میں شدید وعید ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی جنت میں داخل نہیں فرمائے گا۔
2.جنت کا حرام ہونا صاف بتا رہا ہے کہ رعیت کو دھوکا دینا گناہ کبیرہ ہے‘ اس لیے اگر حاکمین اور امراء جنت میں داخلہ چاہتے ہیں تو انھیں ایسے فعل سے باز رہنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1285   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1285  
تخریج:
[بخاري 7150]،
[مسلم، الايمان142]،
[تحفة الاشراف 464/8،461/8]
فوائد:
➊ بخاری رحمہ الله نے حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے اس میں ایک قصہ ہے کہ عبید الله بن زیاد معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کرنے کے لئے آئے، یہ اس بیماری کا واقعہ ہے جس میں معقل رضی اللہ عنہ فوت ہوئے۔ عبید اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کے زمانے میں بصرے کے عامل تھے تو اس موقعہ پر معقل رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ حدیث سنائی۔
بلوغ المرام میں مذکور الفاظ مسلم کی ایک روایت کے ہیں۔
مسلم کی دوسری روایت ہے یہ ہے کہ فرمایا:
«ما من امير يلي امر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة» [ مسلم / الايمان 366]
جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکو مت کا والی بنے، ان کے ساتھ نہ پوری کوشش کرے، نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
➋ اس حدیث میں ان حکمرانوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو اپنی رعایا کی بہتری کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں بلکہ انہیں دھوکا دیتے ہیں اور توبہ کئے بغیر اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ ان کے لئے جنت حرام ہے۔ کیونکہ اتنے بندوں کے حق وہ قیامت کے دن کہاں سے ادا کریں گے؟ اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف ہے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنے پاس سے ادا کرے اور ان کو دھوکا دینے والے اور ظالم حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے بلکہ انہیں ضرور ہی ان حقوق کے بدلے جہنم میں پھینکے گا۔
جنت حرام ہونے کا مطلب اس حدیث میں یہ ہے کہ جہنم میں جانے کے بغیر شروع میں ہی جنت میں داخل ہو جانا ان پر حرام ہے۔ یہ مطلب اس لئے کیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جنت صرف کفار کے لئے حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ» [5-المائدة:72]
یقیناً جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔
اور جنت کے پانی اور رزق کے متعلق فرمایا:
«إِنَّ اللَّـهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ» [7-الأعراف:50 ]
اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔
اس لئے کسی مسلمان کے متعلق اگر یہ الفاظ آئیں کہ اس پر جنت حرام ہے تو اس سے مراد یہی ہو گا کہ جنت میں شروع میں داخلہ اس پر حرام ہے۔
زیر بحث حدیث میں مسلم کی دوسری روایت اس مطلب کی تائید کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا: «لم يدخل معهم الجنة» اپنی رعیت کی خیر خواہی نہ کرنے والا ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔ البتہ اپنے گناہوں اور زیادتیوں کی سزا پانے کے بعد کسی وقت جنت میں چلا جائے تو الگ بات ہے۔
➌ رعایا کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے ان کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ ان کی عقل برباد کرنے کی ہر کوشش کو ناکام کرے اس مقصد کے لئے قتل، ڈاکے، چوری، زنا، بہتان، شراب نوشی پر اللہ کی بتائی ہوئی حدیں نافذ کرے، بے حیائی کو پھیلنے سے روکے، مظلوم کی فریاد سنے۔ رعایا سے علیحدگی اور فاصلہ اختیار نہ کرے۔ فیصلہ کرتے وقت اپنی خواہش کی بجائے حق کے مطابق فیصلہ کرے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جہاد جاری رکھے۔ ان کی تربیت کے لئے قرآن و سنت کی تعلیم کا اہتمام کرے اور ان کے تمام معاملات پر صرف ان لوگوں کو ذمہ دار مقرر کرے جو اس کی پوری محنت کوشش اور جستجو کے بعد اسے دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ اس کام کے اہل معلوم ہوئے ہیں۔ اموال اور دوسرے فوائد کی تقسیم میں عدل کرے ایسا حکمران اللہ کے ہاں بہت ہی بلند درجے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ان میں سب سے پہلا شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار فرمایا امام عادل ہے۔ [بخاري۔ الاذان / 36]
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز وجل وكلتا يديه يمين الذين يعدلون في حكمهم واهليهم وما ولوا» [مسلم / الامارة: 4721 ]
انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں رحمان عزوجل کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو فیصلے میں عدل کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے بھی ذمہ دار ہیں عدل کرتے ہیں۔
➍ خیرخواہی کے مقابلے میں دھوکا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر کام میں اپنی خواہش نفس کو مقدم رکھے۔ رعایا کی جان مال اور آبرو برباد کرے، حدود اور جہاد کو باطل کرے، مسلمانوں کے مال میں اپنی مرضی سے ناحق تصرف کرے، ان پر ظلم کا مداوا نہ کرے، ناجائز ٹیکس لگا کر ان کی زندگی تلخ کر دے۔ مفسدوں کو رعایا پر ظلم کی کھلی چھٹی دے دے، حکو مت کی ذمہ داریوں پر اہل لوگوں کی بجائے اپنی خوشامد کرنے والے جا و بیجا حمایت کرنے والے نااہل اور مفس لوگوں کو مقرر کرے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کر کے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے ایسے حکمرانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت حرام ہونے کی وعید سنائی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 163   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7150  
´حکام و امراء پر عوام کو دھوکہ دینا حرام و کبیرہ گناہ ہے`
«. . . يَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ: 7150]
لغوی توضیح:
«اسْتَرْعَـاهُ» حاکم و سربراہ بنائے۔
«رَعِيَّة» اس کی جمع رعایا ہے، مراد ہے عوام و محکومین۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکام و امراء پر عوام کو دھوکہ دینا اور ان کے حقوق غضب کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے اور ایسے حکام پر جنت حرام ہے۔ اس لیے اگر کوئی حاکم و امیر چاہتا ہے کہ اسے جنت میں داخلہ مل جائے تو وہ اپنی رعایا کے مکمل حقوق ادا کرے، ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے، ان سے ناانصافی نہ کرے، ان پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالے، انہیں دہشت گردوں اور لٹیروں سے تحفظ فراہم کرے وغیرہ وغیرہ۔ حکمران کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عادل حاکم روز قیامت ان سات خوش نصیبوں میں سے ایک ہو گا جسے اللہ اپنا سایہ عطا فرمائیں گے۔ [أخرجه البخاري: 660 و مسلم: 1031]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 86   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 363  
حسن ؒ بیان کرتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے حضرت معقل بن یسار مزنی ؓ کی مرض الموت میں عیادت کی تو معقل ؓ کہنے لگے: میں تمھیں ایک ایسی حدیث سنانے لگا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ابھی کچھ عرصہ اور زندہ رہوں گا تو تمھیں یہ حدیث نہ سناتا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ کسی کا نگران اور محافظ بناتا ہے اور وہ اپنی رعایا کے (حقوق میں) خیانت کرتا ہوا مرتا ہے، تو اس پر اللہ نے جنّت حرام کر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:363]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
يَسْتَرْعِيْهِ:
حفاظت و نگہداشت چاہنا۔
(2)
غَاشٌّ:
دھوکا اور فریب کرنے والا۔
فوائد ومسائل:
(1)
رعایا کے جان ومال،
عزت ناموس اور دین کی حفاظت حکمران کی ذمہ داری ہے،
اگر وہ ان حقوق وفرائض کی ادائیگی میں جان بوجھ کر کوتاہی کرتا ہے تو یہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ بد عہدی اور خیانت ہے،
اس لیے اس کی اصل اور واقعی سزا دوزخ ہے۔
لیکن اس کے ساتھ اگر وہ مومن ہے،
اور اس کے اعمال صالحہ بھی ہیں تو اس سزا میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
(2)
حضرت معقلؓ نے آخری وقت میں یہ حدیث اس لیے بیان کی کہ وہ پہلے یہ سمجھتے تھے،
اس حدیث کو بیان کرنے کی صورت میں فتنہ وفساد برپا ہوگا،
لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑیں ہوں گے،
یا وہ انہیں نقصان پہنچائے گا۔
اب اگر آخری وقت میں بھی بیان نہ کرتے تو یہ کتمان علم ہوتا،
اس لیے اس گناہ سے بچنے کے لیے موت کے وقت بیان کر دی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 363   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4729  
حضرت حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ حضرت معقل بن یسار مزنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مرض الموت میں، عبیداللہ بن زیاد ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا، تو وہ فرمانے لگے، میں تمہیں ایک حدیث سنانے لگا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں زندہ رہوں گا، تو میں تمہیں نہ سناتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس بندے کو بھی اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا نگران اور محافظ بناتا ہے اور وہ جس دن مرتا ہے، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4729]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عبیداللہ بن زیاد،
نہایت سخت گیر گورنر تھا اور اس کو وعظ و تبلیغ کرنا بے کار تھا،
یہ چیز بھی اس کی سخت گیری میں اضافہ کا باعث بنتی تھی،
اس لیے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری مرحلہ میں محض کتمان علم سے ڈرتے ہوئے تبلیغ کا فریضہ ادا کیا،
کیونکہ وہ سمجھتے تھے،
اس کو کچھ کہنا لاحاصل ہے،
بلکہ اپنے آپ کو بلا ضرورت اس کے غیظ و غضب کا نشانہ بنانا ہے اور موت کے وقت،
اس کی بددماغی کا خطرہ نہ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4729   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7150  
7150. سیدنا حسن بصری ؓ سے روایت ہے کہ عبیداللہ بن ذیاد،سیدنا معقل بن یسار ؓ کی اس مرض میں عیادت کے لیے آیا جس میں وہ فوت ہوئے تھے۔ سیدنا معقل بن یسار ؓ نے اس سے کہا: میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ میں نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو رعایا کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہداشت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7150]
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں اتنا زیادہ ہے حالانکہ بہشت کی خوشبو ستربرس کی راہ سے محسوس ہوتی ہے۔
طبرانی کی دوسری روایت میں ہے کہ یہ عبیداللہ بن زیادہ ایک ظالم سفاک چھوکرا تھا جس کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حاکم بنایا تھا وہ بہت خونریزی کیا کرتا آخر معقل بن یسار صحابی رضی اللہ عنہ نے اس کو نصیحت کی کہ ان کاموں سے باز رہ اخیرتک۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7150   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7151  
7151. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔ وہاں عبیداللہ بن ذیاد آیا تو سیدنا معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا: جو بادشاہ مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی پھر وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7151]
حدیث حاشیہ:
حضرت معقل بن یسار مزنی اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔
سنہ 60ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7151   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7151  
7151. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔ وہاں عبیداللہ بن ذیاد آیا تو سیدنا معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا: جو بادشاہ مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی پھر وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7151]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کا سبب اس طرح بیان ہوا ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بصرے کا گورنرتھا اور بہت خونریزی کرتا تھا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نصیحت کرنی چاہی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ واقعہ دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پیش آیا ہو۔
بہرحال ظالم حکمرانوں کے لیے اس میں بہت سخت وعید بیان ہوئی ہے کہ جو حاکم مسلمانوں کے حقوق ضائع کرتا اور ان کی خیانت کامرتکب ہوتا ہے تو قیامت کیے دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑا کیا جائے گا وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام کردی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔
اگر وہ عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔
(فتح الباری 13/159) w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7151