4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1280
وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «اتقوا الظلم فإن الظلم ظلمات يوم القيامة واتقوا الشح فإنه أهلك من كان قبلكم» أخرجه مسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے روز اندھیرے اور تاریکیاں ہوں گی۔ نیز بخیلی سے بھی بچو تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگ اسی سے ہلاک ہوئے ہیں۔“(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1280]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تحريم الظلم، حديث:2578.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1280
تخریج: «أخرجه مسلم، البر والصلة، باب تحريم الظلم، حديث:2578.»
تشریح: اس حدیث میں بھی ظلم سے منع کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ تاریکیوں اور اندھیروں کی شکل میں سامنے آئے گا۔ جہاں روشنی اور نور کی ضرورت ہوگی وہاں تاریکیوں اور اندھیروں سے پالا پڑے گا‘ نیز اس میں لالچ و کنجوسی سے بچنے کا بھی حکم ہے۔ اور شُحّ‘ حصول مال کے لالچ اور حرص کے ساتھ ساتھ اس کے خرچ کرنے میں بخل اور کنجوسی کو کہتے ہیں۔ اور یہی حرص و بخل ہمیشہ خون ریزی اور بدعملی کا باعث بنتا ہے جس سے حدیث میں خبردار کیا گیا ہے۔ (سبل السلام)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1280
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1280
فوائد: ➊ شدید حرص جس کے ساتھ کنجوسی بھی ہو اور وہ آدمی کی عادت بن چکی ہو۔ «اَلشُّحُّ» کہلاتی ہے۔ ➋ صحیح مسلم میں پوری حدیث اس طرح ہے:۔ «واتقوا الشح، فإن الشح أهلك من كان قبلكم، حملهم على أن سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم.» ”اور حرص سے بھری ہوئی شدید بخیلی سے بچو کیونکہ اس شدید بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ اس نے ابھار کر انہیں اس بات پر آمادہ کر دیا کہ انہوں نے اپنے خون بہا دیئے اور اپنے آپ پر حرام چیزیں حلال کر لیں۔“ شدید بخل اور شدید حرص کے نتیجے میں جب وہ دوسروں کے اموال و حقوق غصب کرنے لگے تو ہر طرف فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑے پھیل گئے پھر نہ اپنوں کی پروا رہی نہ غیروں کی، نہ حلال کی تمیز رہی نہ حرام کی۔ نتیجہ دنیا میں بھی بربادی اور آخرت میں بھی تباہی کی صورت میں نکلا۔ ➌ الله تعالیٰ نے بخل اور حرص کی مذمت فرمائی ہے «وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ»[59-الحشر:9] ”جو شخص اپنے نفس کی شدید حرص سے بچا لیا گیا تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔“ اور فرمایا:۔ «وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ»[47-محمد:38] ”اور جو شخص بخل کرے اس کے بخل کا وبال خود اسی پر ہے۔“ اور فرمایا «وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»[3-آل عمران:180] ”وہ لوگ جو اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو انہیں اللہ نے دی ہے۔ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ایسا کرنا ان کے لئے بہتر ہے بلکہ وہ ان کے لئے بہت ہی برا ہے عنقریب قیامت کے دن ان کے گلے میں اس چیز کا طوق ڈالا جائے گا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «شر ما فى رجل شح هالع وجبن خالع»[ابوداؤد عن ابي هريرة 2511، صحيح ابن داؤد 2192] ”آدمی میں بدترین خصلت سخت گھبراہٹ میں ڈال دینے والی حد سے بڑھی کنجوسی ہے اور دل نکال دینے والی بزدلی ہے۔“ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے: «اللهم إني اعوذ بك من الجبن، واعوذ بك من البخل، واعوذ بك من ان ارد إلى ارذل العمر، واعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر»[بخاري عن سعد 6374] ”اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں نکمی عمر سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور قبر کے عذاب ہے۔“ ➎ بخل کیا ہے؟ عام طور پر ہر آدمی اپنے آپ کو سخی اور دوسرے کو بخیل سمجھتا ہے اور بعض اوقات آدمی ایک کام کرتا ہے تو کوئی اسے بخل قرار دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ بخل نہیں ہے۔ تو وہ بخل جو باعث ہلاکت ہے اس کا ضابطہ کیا ہے؟ صاحب سبل فرماتے ہیں کہ سخاوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر جو چیزیں واجب فرمائی ہیں انہیں ادا کرے۔ واجب کی دو قسمیں ہیں ایک واجب شرعی مثلاً زکوٰة، ان لوگوں کے اخراجات جن کا نفقہ اس کے ذمے ہے اور دوسرے مقامات جہاں اللہ نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے دوسرا وہ واجب جو وعدے کی وجہ سے ضروری ٹھہرتا ہے یا انسانی شرافت اور مروت اس کا تقاضا کرتی ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچے وہ بخیل ہے اور جو شخص اللہ کے حقوق مثلاً زکوٰة اور اہل و عیال کا نفقہ وغیرہ خوش دلی سے ادا کرے اور لوگوں سے معاملات میں معمولی معمولی چیزوں پر تنگدلی اور باریک پڑتال سے بچ کر فراخدلی کا معاملہ کرے یہ سخی ہے۔ ➏ بخل کی بیماری کے دو سبب ہیں۔ پہلا ان خواہشات کی محبت جو مال اور میں امیدوں کے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔ دوسرا خود مال سے محبت ہو جانا کہ یہ میرے پاس رہے۔ مثلاً روپے پیسے سے محبت تو اس لئے تھی کہ اس کے ذریعے ضروریات اور خواہشات پوری ہوتی ہیں۔ پھر جب معاملہ اور بڑھا تو خود روپے پیسے سے محبت ہو گئی ضرورتیں اور خواہشیں بھول گئیں روپیہ خود ضرورت اور خواہش بن گیا۔ یہ آدمی کے لئے انتہائی بدبختی کی بات ہے کیونکہ جب ضروریات میں خرچ ہی نہیں کرتا تو سونے اور پتھر میں کیا فرق ہے۔ ➐ حرص اور بخل کا علاج یہ ہے کہ خواہشات کی محبت سے جان چھڑانے کے لئے اتنے پر قانع اور راضی ہو جائے جو اللہ نے اسے دیا ہے اور اسی پر صبر کرے۔ لمبی امیدوں کا علاج یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اپنے ساتھیوں کی موت کی طرف توجہ کرے اور دیکھے کہ انہوں نے مال جمع کرنے مکان اور جائیداد بنانے میں کتنی محنت کی پھر کس طرح وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بعض لوگ اپنے بچوں کے لئے مال میں بخل کرتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے وہی انہیں رزق دے گا۔ خود اپنے آپ کو دیکھے بعض اوقات والدین اس کے لئے ایک پیسہ چھوڑ کر نہیں جاتے۔ پھر کون ہے جو اسے اس مقام پر پہنچاتا ہے۔ بخل کے علاج کے لئے قرآن مجید کی وہ آیات جو بخل سے روکتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اللہ کے محبوب بندوں کی زندگی کو دیکھے۔ پھر بخل کے انجام پر غور کرے۔ کیونکہ جو بھی مال جمع کرتا ہے لازماً آفات اور مصیبتوں کا نشانہ بنتا ہے۔ غرض سخاوت ہی دنیا اور آخرت میں انسان کے لئے خیروبرکت کا باعث ہے بشرطیکہ حداعتدال میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا»[25-الفرقان:67] ”اور (رحمان کے بندے وہ ہیں) جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں نہ بخیلی کرتے ہیں اور ان کا خرچ اسی کے درمیان پورا پورا ہوتا ہے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 139