4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1277
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إياكم والحسد فإن الحسد يأكل الحسنات كما تأكل النار الحطب» أخرجه أبو داود، ولابن ماجه من حديث أنس نحوه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ اس لئے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔“ اس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے اور ابن ماجہ میں بھی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1277]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في الحسد، حديث:4903.* جد إبراهيم بن أبي أسيد لا يعرف (تقريب) والحديث ضعفه البخاري، وحديث أنس: أخرجه ابن ماجه، الزهد، حديث:4210، وفيه عيسي الحناط وهو متروك (تقريب).»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1277
تخریج: «أخرجه أبوداود، الأدب، باب في الحسد، حديث:4903.* جد إبراهيم بن أبي أسيد لا يعرف (تقريب) والحديث ضعفه البخاري، وحديث أنس: أخرجه ابن ماجه، الزهد، حديث:4210، وفيه عيسي الحناط وهو متروك (تقريب).»
تشریح: 1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم حسد کے برا ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں اس کی قباحت اور شناعت بیان فرمائی ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ 2. شیطان کی پہلی نافرمانی حسد کی بنا پر تھی۔ قابیل نے ہابیل (اپنے بھائی) کو حسد کی بنا پر قتل کیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خلاف ان کے بھائیوں کی کارگزاری بھی اسی حسد کے نتیجے میں تھی۔ علمائے یہود اور عبداللہ بن ابی منافق کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کا باعث بھی یہی حسد تھا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1277
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1277
تخریج: «ضعيف» ابوداود (4903) کی سند میں جد ابراہیم مجہول ہے باقی راوی موثق ہیں۔ بخاری نے فرمایا: ”یہ صحیح نہیں۔“ دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الضعيفة للالبانی (1902) اور ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ کی روایت (4210) میں ایک راوی عیسیٰ بن ابی عیسیٰ حناط ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے کہ وہ متروک ہے اس لئے یہ سند بھی بہت ہی ضعیف ہے۔ [سلسلة ضعيفه 1901 ] فوائد: ➊ یہ روایت اگرچہ کمزور ہے مگر حسد کی ممانعت کی صحیح احادیث بھی موجود ہیں۔ چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تباغضوا ولا تحاسدوا، ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا» ”ایک دوسرے کے مقابلے میں بغض نہ رکھو ایک دوسرے کے مقابلے میں حسد نہ کرو ایک دوسرے کے مقابلے میں قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“[صحيح بخاري 6065 ] اس حدیث میں حسد کرنے والے کے مقابلے میں اس پر حسد کرنا منع فرمایا گیا ہے تو اس شخص پر حسد کرنا بدرجہ اولیٰ حرام ہوا جو تم پر حسد نہیں کرتا۔ [فتح] ➋ حسد کا معنی ہے کسی شخص پر اللہ کی نعمت کے زوال کی تمنا کرنا۔ کہ یہ نعمت اسے کیوں ملی یہ اس سے چھن جانی چاہئے پھر خواہ وہ حسد کرنے والے کو ملے یا نہ ملے۔ قباحت کے لحاظ سے حسد کے کئی درجے ہیں سب سے بدتر یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمت دی ہے اس سے چھن جانے کی تمنا کے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے۔ پھر بعض کی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے چھن کر مجھے مل جائے اور بعض کو اس سے غرض نہیں ہوتی بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں کہ اس کے پاس یہ نعمت نہیں رہی۔ دوسرا یہ کہ عملی طور پر تو اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے لیکن دل میں یہ خواہش رکھے کہ اس کے پاس یہ نعمت نہ رہے۔ یہ دونوں صورتیں حرام ہیں اور سورہ فلق میں ایسے حاسدوں کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے «وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ»”اور حاسد کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جب وہ حسد کرے۔“ یعنی حسد کے تقاضے کے مطابق زوال نعمت کی خواہش رکھے یا اس کے لئے عملی کوشش بھی کرے۔ حسد کی ایک صورت یہ ہے کہ دل میں خیال آتا ہے کہ اس شخص کو یہ نعمت کیوں ملی مگر آدمی اسے ہٹا دیتا ہے نہ اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے نہ ہی ایسا اراده یا خواہش رکھتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اس پر مواخذہ نہیں ایسے خیالات آ ہی جاتے ہیں کیونکہ انسان کی طبیعت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کا کوئی ہم جنس کسی خوبی میں اس سے بڑھ کر ہو۔ تو جو شخص ایسے خیال آنے پر انہیں دور کرنے کی کوشش کرے اور محسود کے ساتھ احسان کرے، اس کے لئے دعا کرے، اس کی خوبیاں عام بیان کرنا شروع کر دے تاکہ دل میں اس بھائی کے ساتھ حسد کی بجائے اس سے محبت پیدا ہو جائے تو یہ اس کے ایمان کے اعلی درجہ کی علامت ہے۔ ➌ حسد کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حاسد دراصل اللہ تعالیٰ پر ناراض ہوتا ہے کہ اس نے اسے وہ نعمت کیوں دی۔ پھر بندے پر اس کے کسی جرم کے بغیر ناراض ہوتا ہے کیونکہ اس نعمت کے حصول میں اس کا کچھ اختیار نہیں۔ تو حاسد دراصل اللہ کا بھی دشمن ہے اللہ کے بندوں کا بھی دشمن ہے۔ ➍ حسد کا علاج یہ ہے کہ یہ سوچے کہ حسد کا نقصان دین و دنیا میں حسد کرنے والے کو ہی ہے محسود کو کوئی نقصان نہیں، نہ دنیا میں نہ دین میں۔ بلکہ اسے دین و دنیا میں حاسد کے حسد سے فائدہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ دین میں فائدہ یہ ہے کہ وہ مظلوم ہے خصوصاً جب حاسد قول یا عمل سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ قیامت کو اسے ظلم کا بدلہ ملے گا اور ظالم حاسد نیکیوں سے مفلس رہ جائے گا اور دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے دشمن غم، فکر اور عذاب میں مبتلا رہیں اور حاسد جس عذاب اور مصیبت میں گرفتار ہے اس سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے۔ وہ ہر وقت حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔ اطمینان اور دلی سکون سے محروم ہو تا ہے۔ ➎ حسد سے نجات پانے کے لئے مفید عمل یہ ہے کہ حسد کے تقاضے کے برعکس اس شخص کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے، اس کے لئے دعا کرے، اس کی تعریف کرے یہ سمجھ کر کہ یہ جذبہ کبر کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے تواضع اختیار کرے اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ تو اس سے ان شاء اللہ اس بیماری کا علاج ہو جائے گا گو یہ علاج مشکل اور تلخ ہے مگر اللہ سے مدد مانگے اور نفس امارہ کا مقابلہ کرے تو آسان ہو جاتا ہے۔ ➏ حسد آدمی کو اللہ کی نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی سب سے پہلی نافرمانی حسد ہی کی وجہ سے واقع ہوئی شیطان نے آدم علیہ السلام پر حسد کی وجہ سے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا پھر سب سے پہلے قتل کا باعث بھی یہی بنا کہ قابیل نے ہابیل کو حسد کی بنا پر قتل کر دیا۔ براداران یوسف علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام اور ان کے والدین پر جو ظلم کیا اس کا باعث بھی یہی حسد تھا۔ یہودی لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بر حق ہیں ایمان نہ لائے تو اس کا باعث بھی یہی حسد تھا۔ «أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ»[4-النساء:54 ] ”بلکہ یہ لوگوں پر اس چیز میں حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے۔“ اور فرمایا: «وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم»[2-البقرة:109 ] ”بہت سے اہل کتاب کی خواہش ہے کہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد دوبارہ کافر بنا لیں اپنے نفسوں کے حسد کی وجہ سے۔“ ➐ بعض اوقات حسد کا لفظ غبطہ یعنی رشک اور ریس کے معنی میں بھی آ جاتا ہے یعنی کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر یہ خواہش کرے کہ مجھے بھی یہ نعمت مل جائے لیکن یہ خواہش نہ ہو کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے۔ یہ حرام نہیں مگر صرف دو چیزوں پر ریس کرنا پسندیدہ ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا حسد إلا فى اثنتين، رجل آتاه الله القرآن، فهو يقوم به آناء الليل، وآناء النهار، ورجل آتاه الله مالا، فهو ينفقه آناء الليل، وآناء النهار»[متفق عليه] ”حسد (ریس) نہیں مگر دو چیزوں میں ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اس کے ساتھ قائم رہتا ہے اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہے تو وہ رات اور دن کی گھڑیوں میں اس سے خرچ کرتا رہتا ہے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 129
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4903
´حسد کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا لیتا ہے، جیسے آگ ایندھن کو کھا لیتی ہے یا کہا گھاس کو (کھا لیتی ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4903]
فوائد ومسائل: یہ روایت ضعیف ہے۔ تاہم حسد کے برا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ کیونکہ حسد در اصل عقیدہ رضا بالقضا (اللہ کے فیصلوں اور اس کی تقسیم پر راضی رہنے) میں کمی کی وجہ سے آتا ہے اس لیے انسان کسی کے پاس کوئی نعمت اور خیر دیکھے تو اس پر جلنے کڑھنے کی بجائے اللہ سے دُعا کیا کرے کہ اے اللہ! مجھے بھی یہ یا اس سے عمدہ عنائت فرما۔ یہ کیفیت رشک اور غیبُطہ کہلاتی ہے جو ایک ممدوح صفت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4903