وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يأمرني فأتزر فيباشرني وأنا حائض. متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہبند مضبوطی سے باندھنے کا حکم فرماتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ مباشرت کرتے، حالانکہ میں اس وقت حالت حیض میں ہوتی تھی۔ (بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 123]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحيض، باب مباشرة الحائض، حديث:300، 302، ومسلم الحيض، باب مباشرة الحائض فوق الإزار، حديث:293.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 123
� لغوی تشریح: «فَأَتَّزِرُ» باب افتعال سے صیغۂ واحد متکلم ہے جس کے معنی ہیں: میں ازار پہن لیتی۔ «فَيُبَاشِرُنِي» مجھے چھوتے، میرے جسم کے ساتھ اپنا جسم لگاتے اور یہ جماع کے بغیر ہوتا تھا، یعنی مباشرت۔
فوائد و مسائل: ➊ «بَاشَرَ يُبَاشِرُ» «مُبَاشِرَةُ» کے معنی ہیں: ایک دوسرے کے ساتھ اپنا جسم لگانا۔ یہ اس کے لغوی معنی ہیں۔ مجازی طور پر اس سے جماع کے معنی بھی لیے جاتے ہیں۔ ➋ منکرین حدیث کی ستم ظریفی دیکھیے کہ انہوں نے عوام کو احادیث نبویہ سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے اس کے معنی کیے ہیں کہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت حیض میں اپنی بیویوں سے مباشرت (جماع) کر لیتے تھے جب کہ قرآن مجید میں اس کی صریحاً ممانعت ہے۔ نتیجہ اس سے یہ برآمد کرتے ہیں کہ احادیث جھوٹی ہیں، یہ قابل اعتبار نہیں، حالانکہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ مباشرت کے معنی جسم کے ساتھ جسم لگانے کے ہیں۔ اس سے جماع کے معنی کرنا بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیونکہ حقیقی معنی چھوڑ کر مجازی معنی لینے کے لیے دلیل ہونی چاہیے۔ بلکہ اس جگہ تو حقیقی معنی مراد لینے کی دلیل موجود ہے کہ آپ تہبند باندھنے کا حکم دیتے تھے۔ ➌ شریعت نے ایام حیض میں جماع کے سوا عورت کے جسم سے لذت حاصل کرنا جائز قرار دیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 123