وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إني لا أحل المسجد لحائض ولا جنب» . رواه أبو داود. وصححه ابن خزيمة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں حائضہ عورت اور حالت جنابت میں مبتلا مرد کیلئے مسجد میں داخلہ حلال نہیں کرتا (یعنی ان دونوں کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا)۔“ اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 106]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الجنب يدخل المسجد، حديث:232، وابن خزيمة، حديث:1328-جسرة بنت دجاجة: "لا ينزل حديثهاعن درجة الحسن".»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 106
لغوی تشریح: «لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ» «إحلال» سے واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ میں مسجد میں داخلے کو حلال نہیں کرتا۔ یہ صیغہ تحریم کے بارے میں صریح اور بہت واضح ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حائضہ عورت اور جنبی دونوں مسجد میں نہ قیام کر سکتے ہیں اور نہ عام حالت میں مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ➋ اگر مسجد کے علاوہ دوسرا گزرنے کا کوئی راستہ نہ ہو تو ائمہ میں سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مسجد میں سے گزرنا جائز ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ دونوں کا مسجد میں سے گزرنا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یہ حدیث امام موصوف کی رائے کی تائید کرتی ہے۔ ➌ جائز ہونے کی دلیل قرآن مجید کی آیت: «إِلَّا عَابِرِيْ سَبِيْلٍ»[النساء4: 43] ہے، یعنی جنبی مسجد میں نہ جائے۔ ہاں، اگر مسجد میں سے گزرنا پڑے تو مجبوراً گزر سکتا ہے۔ اور حدیث میں جو ممانعت آئی ہے وہ ٹھہرنے کی ہے، نہ کہ گزرنے کی۔ ➍ امام احمد رحمہ اللہ تو آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی بنا پر وضو کے بعد مسجد میں ٹھہرنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں اور جو کوئی آدمی ضرورتاً مسجد میں سو گیا ہو اس حالت میں اسے حالت جنابت لاحق ہو گئی تو ایسے آدمی کے لیے بالاتفاق مسجد سے نکل جانا ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 106
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 232
´ جنبی مسجد میں داخل ہو اس کے حکم کا بیان` «. . . سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: " جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهُ بُيُوتِ أَصْحَابِهِ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَصْنَعِ الْقَوْمُ شَيْئًا رَجَاءَ أَنْ تَنْزِلَ فِيهِمْ رُخْصَةٌ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ بَعْدُ، فَقَالَ: وَجِّهُوا هَذِهِ الْبُيُوتَ عَنِ الْمَسْجِدِ، فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ "، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ فُلَيْتٌ الْعَامِرِيُّ . . . .» ”. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور حال یہ تھا کہ بعض صحابہ کے گھروں کے دروازے مسجد سے لگتے ہوئے کھل رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر کر دوسری جانب کر لو“، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں یا صحابہ کرام کے گھروں میں) داخل ہوئے اور لوگوں نے ابھی کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، اس امید پر کہ شاید ان کے متعلق کوئی رخصت نازل ہو، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ان کے پاس آئے تو فرمایا: ”ان گھروں کے رخ مسجد کی طرف سے پھیر لو، کیونکہ میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال نہیں سمجھتا . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ: 232]
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث باعتبار سند ضعیف ہے۔ قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے کہ جنبی مسجد میں سے راستہ پار کرتے گزر سکتا ہے، ٹھہر نہیں سکتا اور یہی حکم حائضہ اور نفاس والی عورت کا ہے۔“ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا»[4-النساء: 43] ”اے ایمان والو! جب تم شراب کی مدہوشی میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ حتیٰ کہ (تمہیں ہو ش آ جائے اور) جاننے بوجھنے لگو جو تم کہتے ہو اور نماز کے قریب نہ جاؤ جبکہ تم حالت جنابت میں ہو حتی کہ غسل کر لو، ہاں اگر راه چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 232