الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الحدود
حدود کے مسائل
3. باب حد السرقة
3. چوری کی حد کا بیان
حدیث نمبر: 1054
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم. متفق عليه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھال کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی ہے۔ اس کی قیمت تین درہم تھی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحدود/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحدود، باب قول اللهِ تَعَالٰي:﴿والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما﴾، حديث:6795، ومسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها، حديث:1686.»

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1054 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1054  
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب قول اللهِ تَعَالٰي: ﴿والسارق والسارقة فاقطعوا أيديهما﴾ ، حديث:6795، ومسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها، حديث:1686.»
تشریح:
مذکورہ روایت چوتھائی دینار والی سابقہ روایت کے معارض اور منافی نہیں کیونکہ اس دور میں چوتھائی دینار تین درہم کے برابر تھا۔
جمہور ان دونوں حدیثوں پر عمل کرنے کے قائل ہیں مگر ان کے مابین عمل کرنے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔
امام مالک‘ احمد اور اسحاق رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ چوتھائی دینار یا تین درہم یا ان دونوں میں سے کسی ایک کے برابر قیمت کے عوض ہاتھ کاٹا جائے گا، اس سے کم کے عوض نہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اصل نصاب چوتھائی دینار سونا یا اس کے بقدر قیمت ہی ہے۔
اب وہ قیمت‘ خواہ تین درہم ہو یا اس سے کم و بیش۔
ہمارے نزدیک امام شافعی رحمہ اللہ کا قول راجح ہے۔
اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھائی دینار کے عوض قطع ید کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اس سے کم کے عوض ہاتھ نہ کاٹو … چنانچہ اگر تین درہم کی قیمت چوتھائی دینار سے کم ہو تو اس فرمان رسول کے پیش نظر اس کے عوض قطع ید کیسے درست ہو سکتا ہے؟ یاد رہے کہ اس مسئلے میں دو آراء اور بھی ہیں: ایک تو یہ کہ قطع ید کا سرے سے کوئی نصاب ہی نہیں۔
جس طرح کثیرمقدار کے مال کے عوض ہاتھ کاٹا جائے گا اسی طرح قلیل کے عوض بھی۔
یہ ظاہر یہ کی رائے ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ قطع ید کا نصاب دس (۱۰) درہم ہے‘ اس سے کم کے عوض قطع ید نہیں۔
یہ احناف کا قول ہے۔
اور یہ دونوں اقوال احادیث کے معارض ہونے کی وجہ سے مردود اور ناقابل حجت ہیں۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1054