وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «من قذف مملوكه يقام عليه الحد يوم القيامة إلا أن يكون كما قال» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو شخص اپنی مملوک پر زنا کی تہمت لگائے اس پر قیامت کے روز حد لگائی جائے گی۔ الایہ کہ وہ اسی طرح ہو جس طرح کہ اس نے کہا ہے (یعنی وہ تہمت سچی ہو)۔“(بخاری و مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الحدود/حدیث: 1052]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحدود، باب قذف العبيد، حديث:6858، ومسلم، الأيمان، باب التغليظ علي من قذف مملوكه بالزني، حديث:1660.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1052
تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب قذف العبيد، حديث:6858، ومسلم، الأيمان، باب التغليظ علي من قذف مملوكه بالزني، حديث:1660.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو مالک اپنے غلام پر تہمت لگاتا ہے تو دنیا میں اس پر کوئی حد نہیں ہے‘ اسے قیامت کے روز اللہ رب العالمین ہی سزا دے گا۔ اور اگر تہمت سچی ہوگی تو پھر مالک بری ٔالذمہ ہوگا اور غلام کو جرم کی سزا دی جائے گی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1052
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5165
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی توبہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائی اور وہ اس الزام سے بری ہے، تو قیامت کے دن اس پر حد قذف لگائی جائے گی۔“[سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5165]
فوائد ومسائل: رسول اللہ ﷺکی ایک صفت نبي التوبة ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس اُمت کی توبہ ندامت اور الفاظ سے قبول کرلی جاتی ہے۔ جبکہ سابقہ امتوں میں بعض اوقات اپنے آپ کو قتل کرنے سے قبول ہوتی تھی۔ ایک معنی یہ بھی لکھے گئے ہیں۔ کہ اس سے مراد ایمان وعمل ہے۔ جبکہ انسان نے کفر وفسق سے رجوع کیا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5165
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1947
´خادم کو مارنا پیٹنا اور اسے گالی دینا اور برا بھلا کہنا منع ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی التوبہ ۱؎ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے غلام یا لونڈی پر زنا کی تہمت لگائے حالانکہ وہ اس کی تہمت سے بری ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر حد قائم کرے گا، إلا یہ کہ وہ ویسا ہی ثابت ہو جیسا اس نے کہا تھا۔“[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1947]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آپ ﷺ ایک دن ستر مرتبہ اور بعض روایات سے ثابت ہے کہ سومرتبہ استغفار کرتے تھے، اسی لحاظ سے آپ کو ”نبي التوبة“ کہاگیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1947
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4311
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے غلام پر زنا کا الزام عائد کیا، اس پر قیامت کے دن حد قائم کی جائے گی، الا یہ کہ اس نے جو کچھ کہا، ویسا ہی تھا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4311]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اگر کوئی آقا اپنے غلام پر زنا کی تہمت عائد کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تو اس کی آزادی کے شرف و احترام کی خاطر، بالاتفاق دنیا میں اس پر حد قائم نہیں کی جائے گی، چاہے وہ مکمل طور پر غلام ہو یا مکاتب، مدبر اور ام الولد ہو، ہاں قیامت کے دن، وہ حد کا مستوجب ہو گا، لیکن اگر دوسرے کی ام الولد پر تہمت لگاتا ہے، تو پھر حضرت ابن عمر، حسن بصری، اور اہل ظاہر کے نزدیک اس پر حد قائم کی جائے، اگر اپنی ام ولد پر تہمت لگاتا ہے، تو پھر حسن بصری کا موقف بھی یہی ہے کہ اس پر حد نہیں، اس طرح دوسرے کے غلام پر الزام تراشی میں بھی حد نہیں ہے، تعزیر و توبیخ ہے، آخرت میں مؤاخذہ ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4311
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6858
6858. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابو القاسم ﷺ سے سنا: ”آپ فرما رہے تھے: جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی جبکہ وہ اس تہمت سے بری ہو تو اسے قیامت کے دن کوڑے مارے جائیں گے ہاں، اگر غلام ایسا ہو جیسا اس نے کہا تو سزا نہیں ہوگی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6858]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے: جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ آزاد آدمی جب غلام پر تہمت لگائے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی کیونکہ حدیث میں ہے کہ تہمت لگانے والے کو قیامت کے دن سزا دی جائے گی اور کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر دنیا میں اس پر حد لاگو ہوتی تو حدیث میں اس کا ضرور ذکر کیا جاتا جیسا کہ آخرت کی سزا کا ذکر ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے کیونکہ حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ام ولد پر تہمت لگانے پر حد جاری کرنے کے قائل ہیں۔ (فتح الباري: 229/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6858