تخریج: «أخرجه مسلم، الحدود، باب من اعترف علي نفسه بالزني، حديث:1696.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوری طور پر نافذ نہیں کر دینی چاہیے۔
وضع حمل تک توقف کرناچاہیے۔
وضع حمل کے بعد بھی اگر نومولود کی پرورش کا کوئی ذمہ لے اور اسے دودھ پلانے والی کا انتظام ہو تو پھر حد لگائی جائے گی۔
اگر ایسا بندوبست سردست نہ ہو سکے تو پھر دودھ چھڑانے تک نفاذ حد کا عمل مؤخر کیا جائے گا۔
2.حدیث میں ایسی عورت سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تاکید ہے‘ اس لیے کہ نادان رشتہ دار عورتیں اور بیوقوف مرد طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔
شرعی سزا کے علاوہ اس قسم کا ناروا رویہ اور بے جا سلوک تو اسے جیتے جی مارڈالنے کے مترادف ہے۔
3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر دیدہ
(بیوہ‘ مطلقہ اور خاوند والی) عورت اگر بدکاری کرے تو اسے بھی سنگسار کیا جائے گا‘ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے ہوئے اس کے ستر کا لحاظ کیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں بٹھا کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔
4. رجم کے سزا یافتہ مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔
5. جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ عوام و خواص سبھی نماز جنازہ میں شریک ہوں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔