13. سید الشہداء حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1623
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے وحشی سے کہا کیا تم ہمیں قتل (شہادت) حمزہ رضی اللہ عنہ کی خبر نہیں بتاؤ گے؟ اس نے کہا ہاں (کیوں نہ بتاؤں گا۔ قتل حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ یوں ہے) کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر کے دن طعیمہ بن عدی بن خیار کو قتل کیا تھا، مجھ سے میرے آقا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تو میرے چچا کے عوض حمزہ رضی اللہ عنہ کو مار ڈالے تو، تو آزاد ہے۔ وحشی نے کہا کہ جب قریش کے لوگ کوہ عنیین کی لڑائی کے سال نکلے اور عنیین احد کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔ احد کے اور اس کے درمیان ایک نالہ ہے۔ اس وقت میں بھی لڑنے والوں کے ساتھ نکلا جب لوگ لڑائی کی صفیں باندھ چکے، تو سباع (بن عبدالعزیٰ) نے (صف سے) نکل کر کہا کہ کیا کوئی لڑنے والا ہے؟ وحشی کہتے ہیں کہ سیدالشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اس کے مقابل نکل کر کہا اے سباع! اے ام انمار کے بیٹے! جو عورتوں کا ختنہ کرتی تھی، کیا تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے؟ وحشی نے کہا پھر انھوں نے سباع پر حملہ کیا اور سباع گزشتہ کل کی طرح مٹ گیا۔ وحشی نے کہا پھر میں قتل حمزہ رضی اللہ عنہ کے واسطے ایک پتھر کی آڑ میں گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ میرے قریب آئے تو میں نے اپنا ہتھیار پھینک مارا، وہ ان کو زیر ناف اس طرح لگا کہ وہ ان کے دونوں سرین کے پار ہو گیا۔ وحشی نے کہا کہ یہی ان کا آخری وقت تھا۔ جب سب قریش مکہ میں واپس آئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آ کر مکہ میں مقیم ہو گیا۔ جب (فتح مکہ کے بعد) مکہ میں بھی اسلام پھیل گیا تو میں طائف چلا گیا۔ جب طائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قاصد بھیجے تو مجھ سے کہا کہ وہ قاصدوں کو نہیں ستاتے۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا تو فرمایا: ”کیا وحشی تو ہی ہے؟“ میں نے عرض کی جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حمزہ رضی اللہ عنہ کو تو نے ہی شہید کیا تھا؟“ میں نے عرض کی جی ہاں، جو کچھ آپ سے لوگوں نے بیان کیا، وہی ماجرا ہے (یعنی میں نے اپنے آقا کے حکم سے مارا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو مجھ سے اپنا منہ چھپا سکتا ہے؟ وحشی کہتے ہیں کہ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر) باہر آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج (یعنی دعویٰ نبوت) کیا تو میں نے سوچا کہ میں بھی مسلمانوں کے پاس چلوں، شاید مسیلمہ کو مار کر حمزہ رضی اللہ عنہ کا بدلہ اتار سکوں۔ وحشی نے کہا کہ میں (ان) لوگوں کے ساتھ (جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روانہ کیے تھے) نکلا اور مسیلمہ کا حال جو تھا سو تھا (یعنی اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت تھی) وحشی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہی میں نے دیکھا کہ مسیلمہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہے، گویا کہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہے اور پریشان سر ہے۔ میں نے وہی حربہ (جس سے حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا) اس کی چھاتی کے درمیان مارا اور اس کے دونوں کندھوں کے آرپار کر دیا پھر مسیلمہ کی طرف ایک انصاری نے دوڑ کر اس کی کھوپڑی پر تلوار مار دی (یعنی گردن جدا کر دی)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 1623]