سیدہ قتیلہ بنت صفی جہنیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عالم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! تم بہترین لوگ ہو، لیکن کاش کہ تم شرک نہ کرتے ہوتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! (بڑا تعجب ہے) وہ کیسے؟“ اس نے کہا: جب تم قسم اٹھاتے ہو تو کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اب جو آدمی بھی قسم اٹھائے وہ کعبہ کے رب کی قسم اٹھائے (نہ کہ کعبہ کی)۔“ اس نے پھر کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم بڑے اچھے لوگ ہو، لیکن کہ کاش کہ تم اللہ کے لیے اس کا ہمسر نہ ٹھہراتے ہوتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! وہ کیسے؟ اس نے کہا: تم کہتے ہو کہ جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر فرمایا: ”اس آدمی نے ایک بات کی ہے، اگر کوئی آدمی ”ماشاء اللہ“ کہے تو وہ «ثُم شئت»“ کہے (یعنی: جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو)۔“[سلسله احاديث صحيحه/الايمان والتوحيد والدين والقدر/حدیث: 56]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1166
قال الشيخ الألباني:
- " من حلف فليحلف برب الكعبة ". _____________________ أخرجه الطحاوي في " المشكل " (1 / 91) وأحمد (6 / 371 و 372) وابن سعد (8 / 309) والحاكم (4 / 297) من طريق المسعودي: حدثني معبد بن خالد عن عبد الله بن يسار عن قتيلة بنت صيفي الجهنية قالت: " أتى حبر من الأحبار رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا محمد! نعم القوم أنتم لولا أنكم تشركون! قال: سبحان الله! وما ذاك؟ . قال، تقولون إذا حلفتم: والكعبة، قالت: فأمهل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ثم قال: إنه قد قال، فمن حلف فليحلف برب الكعبة، قال: يا محمد! نعم القوم أنتم لولا أنكم تجعلون لله ندا ! قال: سبحان الله! وما ذاك؟ قال: تقولون ما شاء الله وشئت. قالت: فأمهل رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ثم قال: إنه قد قال، فمن قال: ما شاء الله فليقل معها: ثم شئت ". قلت: وهو إسناد رجاله ثقات إلا أن المسعودي - وهو عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة بن مسعود - كان اختلط. وقد ذكره الحافظ برهان الدين الحلبي في رسالته " الاغتباط بمن رمي بالاختلاط " (ص 16) . وأما الحاكم فقال: " صحيح الإسناد "! ووافقه الذهبي! وهذا منه غريب فقد أورد هو المسعودي هذا في " الضعفاء " وقال: " قال ابن حبان: كان صدوقا إلا أنه اختلط بآخره ". نعم إنه قد توبع، فقد أخرجه النسائي (2 / 140) من طريق مسعر عن معبد بن خالد به نحوه. __________جزء : 3 /صفحہ : 154__________ وإسناده صحيح، وذكر الحافظ في " الفتح " (11 / 457) أن النسائي صححه في " كتاب الإيمان والنذور " وأقره لكني لم أر فيه التصحيح المذكورة، فلعل ذلك في " السنن الكبرى " للنسائي. وقد أخرجه أحمد (2 / 69) والبيهقي (10 / 29) عن أبي محمد الكندي قال: " جاء ابن عمر رجل فقال أحلف بالكعبة؟ قال: لا ولكن أحلف برب الكعبة، فإن عمر كان يحلف بأبيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تحلف بأبيك، فإنه من حلف بغير الله فقد أشرك ". ثم روى البيهقي أيضا بإسناد رجاله ثقات أن عمر أراد أن يضرب ابن الزبير لحلفه بالكعبة وقال له " أتحلف بالكعبة؟ ! ". ¤