-" إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الرحمن تبارك وتعالى، لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاءني الداعي لأجبت، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن) *، ورحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد) *، فما بعث الله بعده من نبي إلا في ثروة من قومه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل رحمن ابراہیم، کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ اگر میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں (فوراً) اس کی بات قبول کرتا اور جب ان کے پاس قاصد آیا تو انھوں نے تو کہا: «فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ»”اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔“(۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ»”کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔“(۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔“[سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3817]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1617
قال الشيخ الألباني:
- " إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الرحمن تبارك وتعالى، لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاءني الداعي لأجبت، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن) *، ورحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد) *، فما بعث الله بعده من نبي إلا في ثروة من قومه ". _____________________ أخرجه البخاري في " الأدب المفرد " (605) والترمذي (4 / 128 - 129) والحاكم (2 / 346 - 347 و 570 و 571) وأحمد (2 / 332 و 384) من طريق محمد ابن عمرو عن أبي سلمة عن أبي هريرة مرفوعا به وقال الترمذي: " حديث حسن " . وقال الحاكم: " صحيح على شرط مسلم ". ووافقه الذهبي. وأخرجه مسلم (7 / 98) من طريق ابن شهاب عن أبي سلمة وسعيد بن المسيب عن أبي هريرة به مختصرا. ¤