سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حصول علم کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طالب علم کو مرحبا، بےشک فرشتے طالب علم کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور (کثرت تعداد کی وجہ سے) ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہوتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ وہ اس چیز سے محبت کرتے ہیں، جس کو طالب علم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔“ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مابین سفر میں ہی رہتے ہیں، آپ ہمیں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں فتوی دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات (تک مسح کرنے کی گنجائش ہے)۔“[سلسله احاديث صحيحه/العلم والسنة والحديث النبوي/حدیث: 359]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3397
قال الشيخ الألباني:
- (مرحباً بطَالبِ العلمِ، [إن] طالبَ العِلم لتحفُّه الملائكةُ وتظلٌّه بأجنحتِها، ثمّ يركبُ بعضُهم بعضاً، حتّى يبلغُوا السَّماء الدُّنيا؛ من حبِّهم لما يَطلُب) . _____________________ أخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (8/64/7347) ، وابن عدي في "الكامل " (6/331) ، وابن عبد البر في "جامع بيان العلم " (1/32) عن الصَّعق ابن حزن: ثنا علي بن الحكم البُناني عن المنهال بن عمرو عن زِرِّ بن حُبيش عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: حدث صفوان بن عَسال المرادي قال: أتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو متكئ في المسجد على برد له [أحمر] ، فقلت له: يا رسول الله! إني جئت أطلب العلم، فقال: ... فذكره. قال: قال صفوان: يا رسول الله! لا نزال نسافر بين مكة والمدينة، فأفتنا عن المسح على الخفين؟! فقال له رسول الله عن: "ثلاثة أيام للمسافر، ويوم وليلة للمقيم ". قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال "الصحيح "، وفي بعضهم كلام لا يضر. وقال المنذري في "الترغيب " (1/54/4) : "رواه أحمد، والطبراني بإسناد جيد- واللفظ له- وابن حبان في "صحيحه "، والحاكم، وقال: "صحيح الإسناد" ... ". قلت: أخرجه الحاكم (1/100-101) من طرق عن زر بن حبيش، منها طريق الصعق هذه، ولكنه لم يسق لفظه، وذكر في إسناده عبد الله بن مسعود، ولم يذكره في رواية أخرى له من طريق (عارم) ، وهي رواية ابن عبد البر، وهي أصح __________جزء : 7 /صفحہ : 1176__________ لموافقتها لرواية أحمد (4/239و240) التي أشار إليها المنذري، ومثلها رواية ابن حبان (48/79) من طريق عاصم عن زر عن صفوان به نحوه. وتابعه عبد الوهاب بن بَخت عن زر به نحوه. أخرجه الحاكم- وصححه-، ووافقه الذهبي. وقصة توقيت المسح على الخفين معروفة في "السنن " من طريق عاصم، وهي مخرجة في " الإرواء " (1/140- 141) . ثم إن الحديث قال الهيثمي في "المجمع " (1/131) : "رواه الطبراني في "الكبير"، ورجاله رجال (الصحيح) ". وفي الوصية بطالب العلم والترحيب به حديث آخر يشبه هذا من حديث أبي سعيد الخدري، تقدم تخريجه برقم (280) . * ¤