سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ہم مکہ سے نکلے تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہمارے پیچھے چل پڑی۔ اس نے آواز دی: میرے چچا جان! میرے چچا جان! میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تھماتے ہوئے کہا: اپنی چچا زاد کو اپنے پاس رکھو۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو اس کے بارے میں میں، زید اور جعفر جھگڑا کرنے لگے۔ میں نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور میں اسے لے کر آیا ہوں۔ زید نے کہا: یہ تو میرے بھائی کی بیٹی ہے اور جعفر نے کہا: میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر سے کہا: ”تو پیدائشی اور اخلاقی اوصاف میں مجھ سے مشابہت رکھتا ہے۔“ زید سے کہا: ”تو ہمارا بھائی اور دوست ہے۔“ اور مجھے کہا: تو مجھ سے ہے، میں تجھ سے ہوں۔ اس طرح کرو کہ اس (بچی) کو اس کی خالہ کے حوالے کر دو، کیونکہ خالہ بھی ماں ہی ہوتی ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے رضاعی بھائی ( سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ) کی بیٹی ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الاداب والاستئذان/حدیث: 2882]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 1182
قال الشيخ الألباني:
- " ادفعوها إلى خالتها، فإن الخالة أم ". _____________________ أخرجه أبو داود (1 / 530 - الحلبية) والحاكم (3 / 120) واللفظ له وأحمد (1 / 88 و 115) من طرق عن إسرائيل عن إسحاق عن هبيرة بن يريم وهانيء بن هانيء عن علي قال: " لما خرجنا من مكة اتبعنا ابنة حمزة فنادت: يا عم يا عم! فأخذت بيدها فناولتها فاطمة قلت: دونك ابنة عمك، فلما قدمنا المدينة اختصمنا فيها أنا وزيد وجعفر، فقلت: أنا أخذتها وهي ابنة عمي، وقال زيد : ابنة أخي، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لجعفر: أشبهت خلقي وخلقي، وقال لزيد: أنت أخونا ومولانا، وقال لي: أنت مني وأنا منك، ادفعوها ... فقلت: ألا تزوجها يا رسول الله؟ قال: " إنها ابنة أخي من الرضاعة ". وقال الحاكم: " صحيح الإسناد ولم يخرجاه بهذه الألفاظ وإنما اتفقا على حديث أبي إسحاق عن البراء مختصرا ". قلت: أبو إسحاق هو السبيعي وكان اختلط لكن له طريق أخرى عند أبي داود والطحاوي في " المشكل " (4 / 174) والحاكم (3 / 211) عن يزيد بن الهاد عن محمد بن نافع بن عجير عن أبيه نافع عن علي بن أبي طالب به نحوه. وفيه: __________جزء : 3 /صفحہ : 178__________ " وأما الجارية فادفعي بها لجعفر فإن خالتها عنده وإنما الخالة أم ". وقال الحاكم: " صحيح على شرط مسلم ". كذا قال، ونافع بن عجير ليس من رجال مسلم، وقد اختلف في إسناده كما في ترجمته من " التهذيب ". وللحديث شاهد مرسل قوي بلفظ: " الخالة أم ". رواه ابن سعد (4 / 35 - 36) عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: إن ابنة حمزة لتطوف بين الرجال، إذا أخذ علي بيدها فألقاها إلى فاطمة في هودجها، قال: فاختصم فيها علي وجعفر وزيد بن حارثة حتى ارتفعت أصواتهم، فأيقظوا النبي صلى الله عليه وسلم من نومه، قال: هلموا أقضي بينكم فيها وفي غيرها، فقال علي: ابنة عمي وأنا أخرجتها وأنا أحق بها، وقال جعفر: ابنة عمي وخالتها (¬1) عندي، وقال زيد: ابنة أخي، فقال في كل واحد قولا راضيا، فقضى بها لجعفر وقال: (فذكره) ، فقام جعفر فحجل حول النبي صلى الله عليه وسلم - دار عليه - فقال النبي صلى الله عليه وسلم : ما هذا؟ قال: شيء رأيت الحبشة يصنعونه بملوكهم. قلت: وسنده صحيح لولا أنه مرسل. ¤