-" إن من أشد الناس بلاء الأنبياء، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم".
سیدنا ابو عبیدہ بن حذیفہ اپنی پھوپھی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم چند خواتین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیمارداری کرنے کے لیے گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا بخار کی حرارت کی وجہ سے اس کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹپک رہے تھے ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ اللہ سے شفا کی دعا کریں تو وہ آپ کو شفا دے دے گا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سے انبیاء پر سب سے کڑی آزمائش پڑتی ہیں، پھر ان پر جو مرتبے میں ان کے قریب ہوتے ہیں، پھر ان پر جو ان کے قریب ہوتے ہیں، پھر ان پر جو ان کے قریب ہوتے ہیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/المرض والجنائز والقبور/حدیث: 1689]
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 145
قال الشيخ الألباني:
- " إن من أشد الناس بلاء الأنبياء، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم ". _____________________ رواه أحمد (6 / 369) والمحاملي في " الأمالي " (3 / 44 / 2) عن أبي عبيدة بن حذيفة عن عمته فاطمة أنها قالت: " أتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، نعوده في نسائه، فإذا سقاء معلق نحوه يقطر ماؤه عليه من شدة ما يجد من حر الحمى، قلنا: يا رسول الله لو دعوت الله فشفاك. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ... " فذكره. وإسناده حسن رجاله كلهم ثقات غير أبي عبيدة هذا فلم يوثقه غير ابن حبان (1 / 275) ، لكن روى عنه جماعة من الثقات. وفي هذه الأحاديث دلالة صريحة على أن المؤمن كلما كان أقوى إيمانا، ازداد ابتلاء وامتحانا، والعكس بالعكس، ففيها رد على ضعفاء العقول والأحلام الذين يظنون أن المؤمن إذا أصيب ببلاء كالحبس أو الطرد أو الإقالة من الوظيفة ونحوها أن ذلك دليل على أن المؤمن غير مرضي عند الله تعالى! وهو ظن باطل، فهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أفضل البشر، كان أشد الناس حتى الأنبياء بلاء، فالبلاء غالبا دليل خير، وليس نذير شر، كما يدل على ذلك أيضا الحديث الآتي: " إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط ". __________جزء : 1 /صفحہ : 275__________ ¤