اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوِتْرِ/حدیث: 991]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 991
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے دو باتیں نکلیں ایک یہ کہ رات کی نماز دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیے، یعنی ہر دوگانہ کے بعد سلا م پھیرے، دوسرے وتر کی ایک رکعت بھی پڑھ سکتا ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے اور ان کی دلیل ضعیف ہے۔ صحیح حدیثوں سے وتر کی ایک رکعت پڑھنا ثابت ہے اور تفصیل امام محمد بن نصر مرحوم کی کتاب الوتر والنوافل میں ہے۔ (مولانا وحید الزماں)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 991
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:991
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ اس حدیث کو کتاب الوتر میں لائے ہیں، حالانکہ اس کا تعلق صلاۃ اللیل سے ہے جس کے لیے امام بخاری نے ایک الگ عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ سائل نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی نماز شب کو وتر بنانے کا طریقہ پوچھا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے کتاب الوتر کا آغاز اس حدیث سے کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں رات کی نماز کو وتر کیسے بناؤں؟ آپ نے فرمایا کہ رات کو نماز پڑھنے والا دو دو رکعت ادا کرے اور جب محسوس کرے کہ صبح طلوع ہونے کو ہے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ اس کی پہلی نماز کو وتر بنا دے گی۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1748 (749) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سائل نے کیفیت ادا کے متعلق سوال کیا تھا کہ صلاۃ اللیل کو اکٹھا ادا کرنا ہے یا الگ الگ، تو آپ نے فرمایا: ”صلاۃ اللیل کو دو دو کر کے پڑھا جائے۔ “ راوئ حدیث حضرت ابن عمر ؓ سے جب اس کا مفہوم دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے۔ اس طرح صلاۃ اللیل کو ادا کیا جائے، پھر آخر میں وتر پڑھا جائے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1783 (749) دن کے نوافل میں بھی یہی طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات کی نماز دو دو کر کے پڑھی جائے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1295) رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی دن کی نماز کے متعلق اسی طرح ہے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ام ہانی ؓ کے گھر آپ نے چاشت کی آٹھ رکعات پڑھی تھیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا تھا۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1290) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی آخری ایک رکعت کو الگ پڑھا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے، پھر آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1718 (736) اس طرح نماز شب ادا کرنا افضل ہے، البتہ یہ بھی جائز ہے کہ آخری رکعت وتر الگ پڑھنے کے بجائے انہیں وصل سے پڑھا جائے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے، ان میں پانچ وتر ہوتے، ان میں تشہد کے لیے صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1720 (737) تین وتر بھی ایک سلام سے پڑھنے ثابت ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین وتروں میں تین سورتیں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ ) ، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ ) اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ ) پڑھتے اور صرف آخری میں سلام پھیرتے تھے۔ (سنن النسائي، قیام الیل، حدیث: 1702) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز وصل سے بھی پڑھتے تھے۔ (فتح الباري: 620/2)(2) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایک وتر پڑھنے کے لیے شرط ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز پڑھی گئی ہو، صرف ایک رکعت پر اکتفا صحیح نہیں۔ لیکن یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وتر برحق ہیں، اس لیے جو چاہے پانچ پڑھ لے یا تین پڑھ لے یا ایک وتر ہی پڑھ لے۔ “(سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1422) حضرت معاویہ ؓ نے بھی ایک رکعت نماز وتر ادا کی تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ان کی تصویب فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3764) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ نماز عشاء کے بعد صرف ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد: 432/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحت وتر کے لیے ضروری نہیں کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز ادا کی گئی ہو، البتہ بہتر ہے کہ ایک رکعت وتر سے پہلے کچھ رکعات پڑھی جائیں تاکہ اس ایک رکعت سے پہلی ادا شدہ نماز کو وتر بنا لیا جائے۔ (فتح الباري: 620/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 991