ابن جریج نے کہا کہ حسن بن مسلم نے مجھے خبر دی، انہیں طاؤس نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنے گیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفوں سے گزرتے ہوئے عورتوں کی طرف آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ”اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کے لیے آئیں“ الآیہ۔ پھر جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم ان باتوں پر قائم ہو؟ ایک عورت نے جواب دیا کہ ہاں۔ ان کے علاوہ کوئی عورت نہ بولی، حسن کو معلوم نہیں کہ بولنے والی خاتون کون تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرات کے لیے حکم فرمایا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا اور کہا کہ لاؤ تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ چنانچہ عورتیں چھلے اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ عبدالرزاق نے کہا «فتخ» بڑے (چھلے) کو کہتے ہیں جس کا جاہلیت کے زمانہ میں استعمال تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِيدَيْنِ/حدیث: 979]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 979
حدیث حاشیہ: اگرچہ عہد نبوی میں عید گاہ کے لیے کوئی عمارت نہیں تھی اور جہاں عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی وہاں کوئی منبر بھی نہیں تھا لیکن اس لفظ فلما فرغ نزل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بلند جگہ تھی جس پر آپ خطبہ دیتے تھے۔ جب آنحضور ﷺ مردوں کے سامنے خطبہ دے چکے تو لوگوں نے سمجھا کہ اب خطبہ ختم ہو گیا ہے اور انہیں واپس جانا چاہیے، چنا نچہ لوگ واپسی کے لیے اٹھے لیکن نبی کریم ﷺ نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکا کہ ابھی بیٹھے رہیں۔ کیونکہ آپ عورتوں کو خطبہ دینے جا رہے تھے۔ دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب دینے والی خاتون اسماءبنت یزید تھیں جو اپنی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے ''خطیبة النساء'' کے نام سے مشہور تھیں۔ انہیں کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم ﷺ عورتوں کی طرف آئے تو میں بھی ان میں موجود تھی۔ آپ نے فرمایا کہ عورتو!تم جہنم کا ایندھن زیادہ بنوگی۔ میں نے آپ کو پکار کر کہا کیونکہ میں آپ کے ساتھ بہت تھی کہ یارسول اللہ! ایسا کیوں ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس لیے کہ تم لعن طعن بہت زیادہ کر تی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 979
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:979
حدیث حاشیہ: اگر عورتیں دور ہوں اور امام کا خطبۂ عید نہ سن سکیں تو آج بھی انہیں الگ نصیحت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ کسی قسم کے فساد یا خطرے کا اندیشہ نہ ہو۔ آج کل لاؤڈ سپیکر نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عطاء اسے واجب خیال کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اور کوئی بھی اس کے وجوب کا قائل نہیں۔ امام نووی ؒ نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے۔ اکثر شارحین نے یہی لکھا ہے کہ عورتیں امام سے دور ہونے کی وجہ سے خطبہ نہ سن سکیں تو امام کو چاہیے کہ وہ دوسرا خطبہ عورتوں کے سامنے دے لیکن عید کا خطبہ تو ایک ہے جس کی پہلے وضاحت ہو چکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی خطبے کا لفظ استعمال نہیں کیا، بلکہ موعظة الإمام سے عنوان قائم کیا ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ امام اگر ضرورت محسوس کرے تو مردوں سے فارغ ہو کر عورتوں کو نصیحت کرے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 979