ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ درخت کھائے (آپ کی مراد لہسن سے تھی) تو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے عطاء نے کہا میں نے جابر سے پوچھا کہ آپ کی مراد اس سے کیا تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی مراد صرف کچے لہسن سے تھی۔ مخلد بن یزید نے ابن جریج کے واسطہ سے (الانیہ کے بجائے) الانتنہ نقل کیا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف لہسن کی بدبو سے تھی)۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 854]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 854
حدیث حاشیہ: کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا یا اس کے کھانے کے بعد مسجد میں جانا برا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ لوگ اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کریں گے اور پھر مسجد ایک پاک اور مقدس جگہ ہے جہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے۔ آج کل بیڑی سگریٹ والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ منہ صاف کر کے بدبو دور کر کے مسواک سے منہ کو رگڑ رگڑ کر مسجد میں آئیں اگر نمازیوں کو ان کی بدبو سے تکلیف ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ کتنا گناہ ہو گا۔ کچا لہسن، پیاز اور سگریٹ بیڑی وغیرہ بدبودار چیزوں کا ایک ہی حکم ہے اتنا فرق ضرور ہے کہ پیاز لہسن کی بو اگر دور کی جاسکے تو ان کا استعمال جائز ہے جیسا کہ پکا کر ان کی بو کو دفع کر دیاجاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 854
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:854
حدیث حاشیہ: (1) لہسن کے ساتھ کچے کی قید ہے، اسی طرح پیاز اور مولی وغیرہ کھا کر مساجد اور دینی اجتماعات میں جانا شریعت میں ناپسندیدہ ہے کیونکہ اس سے انسانوں اور فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ دیگر احادیث میں ہے کہ ایسے شخص کو مسجد سے نکال کر بقیع کی طرف دھکیل دیا جاتا تھا، نیز اذکار اور تلاوت قرآن کے وقت بھی منہ سے گندی بو نہیں آنی چاہیے۔ (2) جمہور کے نزدیک ایسی چیزوں کا کھانا تو حلال ہے لیکن نماز وغیرہ کے وقت ایسی چیزوں سے احتراز ضروری ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے تکلیف محسوس نہ کریں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 854
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 708
´کن لوگوں کو مسجد میں آنے سے روکا جائے گا؟` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اس درخت میں سے کھائے، پہلے دن آپ نے فرمایا لہسن میں سے، پھر فرمایا: لہسن، پیاز اور گندنا میں سے، تو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے، کیونکہ فرشتے بھی ان چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے انسان اذیت و تکلیف محسوس کرتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 708]
708 ۔ اردو حاشیہ: ➊ چونکہ مسجدیں ملائکۂ رحمت کا مقام ہیں، لہٰذا ایسی چیز جس کی بو عموماً یا ڈکار کے وقت یا منہ کھولتے وقت اردگرد کے ساتھیوں کو محسوس ہو، کھا کر مسجد میں آنا منع ہے کیونکہ یہ چیز فرشتوں اور فرشتہ صفت نمازیوں کے لیے تکلیف دہ ہے۔ مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ بھی جو چیز بدبو کا موجب ہے، وہ منع ہے، مثلاً: مولی، حقہ، سگریٹ اور نسوار وغیرہ۔ بعض اہل علم نے اس شخص کو بھی آنے سے منع کیا ہے جس کے منہ سے یا کسی اور عضو سے بیماری کی بنا پر بو آتی ہو اور لوگوں کے لیے نفرت کا باعث ہو۔ ➋ یہ پابندی صرف مساجد کے لیے ہے، باقی مقامات کے لیے نہیں کیونکہ وہاں رحمت کے فرشتوں کا ہونا یقینی نہیں، نیز وہاں ہر ایک کی حاضری بھی ضروری نہیں۔ ➌ چونکہ منع کی وجہ بدبو ہے، لہٰذا اگر کسی طریقے سے ان کی بو ختم کرلی جائے مثلاً: انہیں پکا لیا جائے یا بعد میں کوئی ایسی چیز استعمال کر لی جائے یا کھا لی جائے جس سے منہ کی بو ختم ہو جائے تو پھر مسجد میں آنا جائز ہو گا۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی چیزیں کھا کر مسجد کا رخ نہ کیا جائے۔ احتیاط اسی میں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 708
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3822
´لہسن کھانے کا بیان۔` عطا بن ابی رباح کا بیان ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے الگ رہے“ یا آپ نے فرمایا: ”ہماری مسجد سے الگ رہے، اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک طبق لایا گیا جس میں کچھ سبزیاں تھیں، آپ نے اس میں بو محسوس کی تو پوچھا: ”کس چیز کی سبزی ہے؟“ تو اس میں جس چیز کی سبزی تھی آپ کو بتایا گیا، تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض ساتھیوں کے پاس لے جانے کو کہا جو آپ کے ساتھ تھے تو جب دیکھا کہ یہ لوگ بھی اسے کھانا ناپسند کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3822]
فوائد ومسائل: 1۔ لہسن اور پیاز اگر کچی کھائی جائے تو اس سے بڑی ناگوار بو آتی ہے۔ جس سے ساتھ والے لوگ اور فرشتے ازیت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس کیفیت میں مسجد میں آنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اور اس پر قیاس ہے۔ تمباکو یا ایسی سبزیاں جن کے نتیجے میں ناگوار ڈکار آتی ہے۔ اور یہ بھی کہ منہ کو گندہ رکھنا مسواک نہ کرنا انتہائی قبیح عادت ہے۔
2۔ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے جس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیاہے۔ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ (صحیح المسلم، الأشربة، باب إباحة أکل الثوم۔ ۔ ۔ 2053) میں اس کی صراحت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3822
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1806
´لہسن اور پیاز کھانے کی کراہت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ان میں سے لہسن کھائے، یا لہسن، پیاز اور گندنا ۱؎ - کھائے وہ ہماری مسجدوں میں ہمارے قریب نہ آئے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1806]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بدبودار سبزیاں یا ایسی چیزیں جن میں بدبو ہوتی ہے۔
2؎: بعض احادیث میں (فَلَا یَقْرَبَنَّ الْمَسَاجِد) ہے، اس حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ لہسن، پیاز اور اسی طرح کی بدبودار چیزیں کھا کرمسجدوں میں نہ آیا جائے، کیوں کہ فرشتے اس سے اذیت محسوس کرتے ہیں۔ دیگر بد بودار کھانے اور بیڑی سگریٹ وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1806
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1315
1315- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے لہسن کے بارے میں دریافت کیا گیا: تو انہوں نے فرمایا: ہمارے علاقے میں لہسن نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنے سے منع کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1315]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کچا لہسن (تھوم) اور کچا پیاز یا کوئی اور بد بودار ترکاری مولی وغیرہ نہیں کھانی چاہیے، ہاں پکا کر کھا سکتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1313
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1252
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع فرمایا تو ہم نے ضرورت سے مجبور ہو کر اس سے کھا لیا، اس پر آپﷺ نے فرمایا: ”جس نے اس بدبودار سبزی کو استعمال کیا، وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، کیونکہ فرشتوں کو بھی اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے، جس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1252]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: اَلْكُرَّاث: ایک قسم کی بدبودار ترکاری ہے جس کی بعض قسمیں پیاز اور بعض قسمیں لہسن کے مشابہ ہوتی ہیں اور بعض کے سرے نہیں ہوتے، اس کا مفرد كُرَّاثَةٌ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1252
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5452
5452. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔“ یا فرمایا: ”وہ ہماری مسجد سے الگ رہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5452]
حدیث حاشیہ: اگر لہسن یا پیاز پکا کر کھائی جائے جبکہ اس میں بو نہ رہے تو کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ابوداؤد کی روایت میں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5452
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:855
855. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے یا فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے یا (فرمایا کہ) اسے چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“ ایک مرتبہ نبی ﷺ کے پاس ہنڈیا لائی گئی جس میں سبز ترکاریاں تھیں۔ آپ نے اس میں کچھ ناگوار بو پائی تو دریافت فرمایا کہ اس میں کیا ہے؟ چنانچہ آپ کو ان ترکاریوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے میرے کسی ساتھی کے قریب کر دو۔“ جب آپ نے دیکھا کہ وہ بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو آپ نے فرمایا: ”تم کھاؤ کیونکہ میں تو اس ذات سے مناجات کرتا ہوں جس سے تم نہیں کرتے ہو۔“ احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ کے سامنے بدر، یعنی طباق لایا گیا جس میں ترکاریاں تھیں۔ لیث اور ابوصفوان نے اپنے شیخ یونس سے ہنڈیا کا قصہ بیان نہیں کیا، اس لیے امام بخاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ مذکورہ الفاظ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:855]
حدیث حاشیہ: (1) مذکورہ حدیث دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلا تو وہی جسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے غزوۂ خیبر کے حوالے سے بیان کیا ہے اور دوسرا حصہ جس کے متعلق امام بخاری ؒ کو تردد ہے کہ یہ موصول ہے یا مرسل، جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے۔ گویا یہ دو احادیث ہیں۔ پہلی حدیث اور دوسری حدیث کے درمیان تقریبا سات سال کا وقفہ ہے کیونکہ غزوۂ خیبر سات ہجری کو ہوا تھا اور دوسرا ہنڈیا کا واقعہ ہجرت کے پہلے سال پیش آیا جس کی تفصیل صحیح مسلم میں بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابو ایوب ؓ کے گھر قیام فرمایا اور حضرت ابو ایوب آپ ﷺ کے کھانے وغیرہ کا بندوبست کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ کھانے سے فارغ ہوتے اور بقیہ کھانا واپس بھیجتے تو ابو ایوب ؓ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات تلاش کر کے وہاں سے کھانا کھاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے کھانے میں رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے نشانات نہ دیکھے تو پتہ چلا کہ آپ نے کھانا نہیں کھایا ہے کیونکہ اس میں لہسن ڈالا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ حرام ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حرام تو نہیں لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں کیونکہ اس طرح کی چیزیں فرشتوں سے مناجات میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے جن سے مناجات کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ کھانا تم خود تناول کرو کیونکہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ کھانا تناول کرنے سے میرے ساتھیوں (فرشتوں) کو تکلیف ہو۔ (صحیح ابن خزیمة: 88/3، وصحیح ابن حبان: 4؍ 524، 525)(2) امام بخاری ؒ کے شیخ سعید بن عفیر نے ہنڈیا کا لفظ بیان کیا ہے جبکہ آپ کے دوسرے شیخ احمد بن صالح نے لفظ بدرروایت کیا ہے جس کے معنی طباق ہیں جو امام بخاری ؒ نے خود بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7359) وہاں بھی امام بخاری ؒ نے اس تردد کا اظہار کیا ہے لیکن لیث اور ابو صفوان نے سرے سے اس حدیث (جس میں ہنڈیا کا ذکر ہے) ہی کو بیان نہیں کیا۔ لیث کی روایت کو امام ذہلی نے زہریات میں بیان کیا ہے جبکہ ابو صفوان کی روایت خود امام بخارى ؒ نے متصل سند سے روایت کی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5452) امام بیہقی ؒ نے اس تردد کے متعلق فرمایا ہے کہ متصل حدیث میں اگر کسی لفظ کے مدرج ہونے کی صراحت ہو تو اسے مرسل کا نام دیا جا سکتا ہے بصورت دیگر ہم پوری روایت کو متصل ہی کا درجہ دیں گے۔ (فتح الباري: 442/2) واللہ أعلم۔ (3) لفظ قدر سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں جو لہسن ڈالا گیا تھا اسے پکایا گیا تھا لیکن اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اسے تناول نہیں فرمایا اور نہ کھانے کی وجہ بھی بیان کی۔ دراصل لہسن کو جتنا بھی پکا لیا جائے اس میں ناگوار سی ہوا رہتی ہے، تاہم امت کو پکا کر استعمال کرنے کی اجازت ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ پکا ہوا ہونے کے باوجود اس سے پرہیز کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث پر امام ابن خزیمہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ”رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کہ آپ پکا ہوا لہسن بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ “ امام قرطبی ؒ نے فرمایا ہے کہ لہسن کو اس قدر نہیں پکایا گیا تھا کہ اس سے ناگوار سی ہوا ختم ہو گئی ہو، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے واپس کر دیا۔ (فتح الباري: 442/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 855
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5452
5452. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔“ یا فرمایا: ”وہ ہماری مسجد سے الگ رہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5452]
حدیث حاشیہ: ان احادیث میں اگرچہ لہسن یا پیاز کا ذکر ہے، تاہم ہر وہ ترکاری جس سے منہ میں ناگوار بو پیدا ہوتی ہو اس کا استعمال منع ہے جیسا کہ مولی وغیرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد میں فرشتے ہوتے ہیں وہ بد بودار اشیاء سے تنگ ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات خود نمازی بھی اس بو سے تنگ پڑ جاتے ہیں۔ اگر کسی طریقے سے ان کی بو ختم کر دی جائے تو انہیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر انہیں پکا کر ان کی ناگوار بو ختم کر دی جائے تو انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3827) پیاز کی بو پکانے اور سرکہ ڈالنے سے ختم کی جا سکتی ہے۔ اگر انہیں نمک لگا کر دھوپ میں رکھ دیا جائے اور بعد میں ان پر لیموں نچور دیا جائے تو بھی ان کی بو ختم ہو جاتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5452
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7359
7359. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔۔۔۔۔ یا فرمایا: وہ ہماری مسجد سے الگ تھلگ رہے۔۔۔۔۔۔ اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔“ اس دوران میں آپ کے پاس ایک تھال لایا گیا جس میں ترکاریاں تھیں۔ آپ ﷺ نے اس سے بو محسوس کی تو انکے متعلق پوچھا: آپ کو اس میں رکھی ہوئی سبزیوں کے متعلق بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: اسے صحابی کے قریب کیا گیا تو اس نے دیکھتے ہی انہیں کھانا پسند نہ کیا، جب رسول اللہﷺ نے اس کی ناگواری دیکھی تو فرمایا: ”تم اسے کھالو کیونکہ میں جس سے سرگوشی کرتا ہوں تم اس سے نہیں کرتے۔“ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کے پاس ایک ہنڈیا لائی گئی جس میں ترکاریاں تھیں۔ لیث اور ابو صفوان نے یونس سے (یہ روایت بیان کی لیکن) ہنڈیا کا قصہ بیان نہیں کیا۔ اب میں نہیں جانتا کہ ہنڈیا کا ذکر حدیث کا حصہ ہے یا امام زہری نے اپنی طرف سے بڑھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7359]
حدیث حاشیہ: 1۔ لہسن اور پیاز کے حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کے کھانے اور پینے سے انسان کے منہ سے بو آئے۔ اس میں مولی، گندھنا، تمباکو، سگریٹ، تمباکو والا پان اور بیڑی وغیرہ شامل ہیں، نیز لہسن اور پیاز کچی حالت میں کھانا منع ہے۔ اگر انھیں پکا کر استعمال کیا جائے تو ان کی بو ختم ہو جاتی ہے، چنانچہ بعض روایت میں اس کی صراحت بیان ہوئی ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 854) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بھی دلالتِ شرعی کے طور پر بیان کیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو کھانے کا حکم دیا اور خود نہ کھانے کی وجہ بیان کردی کہ میں حضرت جبرئیل علیہ السلام سے سرگوشی کرتا رہتا ہوں۔ انھیں ان کی بو سے ناگواری اور تکلیف پہنچتی ہے۔ کراماً کاتبین اس میں شامل نہیں، وہ تو ہر انسان کے ساتھ رہتے ہیں پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن اور پیاز کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا ہے۔ اگر یہ چیزیں حرام ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھانے سے بالکل ہی منع فرما دیتے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7359