حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری Q827
عطاء بن ابی رباح (تابعی) نے فرمایا: ”…عورت کی ہیئت مرد کی طرح نہیں ہے، اگر وہ (عورت) اسے ترک کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔“[مصنف ابن ابي شيبه ج1 ص239 ح2474، الحديث حضرو: 13 ص21]
حماد بن ابی سلیمان نے کہا: عورت کی جیسے مرضی ہو (نماز میں) بیٹھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ج1 ص271 ح2790 و سنده صحيح]
حماد کے استاذ ابراہیم نخعی نے کہا: عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه ج1 ص270 ح2788 و سنده صحيح]
ام الدرداء رحمہما اللہ نماز میں مرد کی طرح بیٹھتی تھیں۔ [صحيح بخاري قبل ح827، مصنف ابن ابي شيبه ج1 ص270 ح2785 و سنده قوي]
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77
الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاريQ827
فوائد و مسائل قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے: «انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة»[التاريخ الصغير للبخاري 90] ”وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔“
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے: “ اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔“[بخاري: 6008] اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے: «تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ»[ابن أبى شيبة 2/75/1] ”نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔“
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
➊ «لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ»[بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822] ”تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عبداللہ سے انہوں نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو وہ ہمیشہ دیکھتے کہ آپ نماز میں چارزانو بیٹھتے ہیں میں ابھی نوعمر تھا میں نے بھی اسی طرح کرنا شروع کر دیا لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے روکا اور فرمایا کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ (تشہد میں) دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بایاں پھیلادے میں نے کہا کہ آپ تو اسی (میری) طرح کرتے ہیں آپ بولے کہ (کمزوری کی وجہ سے) میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 827]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 827
حدیث حاشیہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آخرمیں کمزوری کی وجہ سے تشہد میں چار زانو بیٹھتے تھے یہ محض عذر کی وجہ سے تھا ورنہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا رہے اور بائیں کو پھیلا کر اس پر بیٹھا جائے اسے تورک کہتے ہیں عورتوں کے لیے بھی یہی مسنون ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 827
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:827
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ بایاں پاؤں پھیلانے کے بعد اس پر بیٹھتے تھے یا تورک کرتے تھے لیکن امام مالک کی بیان کردہ روایت میں وضاحت ہے کہ بایاں پاؤں پھیلانے کے بعد اس پر بیٹھتے نہیں تھے بلکہ اپنے کولہے پر بیٹھتے تھے۔ اس مفصل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں بیان کردہ طریقہ دوسرے تشہد سے متعلق ہے جیسا کہ مؤطا ہی کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ آخری تشہد میں ایسا کرتے تھے۔ اگر صحیح بخاری میں پیش کردہ روایت کو پہلے تشہد پر محمول کر لیا جائے تو بھی کوئی اشکال نہیں ہے جیسا کہ امام نسائی ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے بیان کیا ہے کہ نماز میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ دائیں پاؤں پر بیٹھنا ہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1158)(2) واضح رہے کہ نماز میں چارزانو بیٹھنا درست نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے نماز میں چار زانو بیٹھنے سے کوئلوں پر بیٹھنا زیادہ پسند ہے، البتہ عذر کی وجہ سے نفل یا فرض نماز میں چار زانو بیٹھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 396/2) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 827