ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیج بن سلیمان نے، انہوں نے سعید بن حارث سے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو پکار کر تکبیر کہی پھر جب سجدہ کیا تو ایسا ہی کیا پھر سجدہ سے سر اٹھایا تو بھی ایسا ہی کیا اسی طرح جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوئے اس وقت بھی آپ نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 825]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:825
حدیث حاشیہ: (1) جب مروان بن حکم مدینہ کے گورنر تھے تو حضرت ابو ہریرہ ؓ مسجد نبوی میں امامت کرانے پر مامور تھے۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہوئے تو حضرت ابو سعید خدری ؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں ایک عنوان (117) بایں الفاظ قائم کیا تھا: ”سجدے سے فراغت کے بعد کھڑے ہوتے وقت تکبیر کہنا۔ “ وہاں حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کی احادیث پیش کی تھیں کہ سجدے سے کھڑے ہوتے وقت اللہ أکبر کہنا چاہی۔ مذکورہ عنوان میں بھی اسی بات کو بیان کیا ہے۔ گویا یہ تکرار ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عنوان میں سجدتین سے مراد رکعتیں ہیں جیسا کہ مذکورہ روایت میں وضاحت ہے۔ باب: 117 میں پہلی رکعت اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت اللہ أکبر کہنے کا بیان ہے اور اس باب میں پہلے تشہد سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت تکبیر کہنے کا ذکر ہے۔ (2) اس میں اختلاف ہے کہ دو رکعت کے بعد تکبیر کب کہی جائے؟ اٹھتے وقت ہی اسے شروع کر دیا جائے جسے تکبیر انتقال کہتے ہیں یا سیدھا کھڑا ہونے کے بعد اللہ أکبر کہا جائے جسے تکبیر قیام کہا جاتا ہے۔ امام مالک کا موقف ہے کہ یہ تکبیر قیام ہے اور جمہور کے نزدیک اسے تکبیر انتقال کہا جائے گا۔ امام بخاری نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے اور احادیث پیش کی ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 825