ہم سے صلت بن محمد بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے واصل سے بیان کیا، انہوں نے ابووائل سے، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب وہ نماز پڑھ چکا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ تو نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ حذیفہ نے یہ فرمایا کہ اگر تم مر گئے تو تمہاری موت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر نہیں ہو گی۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 808]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:808
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران سجدہ میں طمانیت ضروری ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو اس فطرت کے خلاف مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مامور کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 791) واضح رہے کہ بعینہٖ یہ باب (26) مذکورہ حدیث سمیت پہلے گزر چکا ہے۔ لیکن پہلے امام بخاری ؒ نے کسی دوسرے مقصد کے لیے بیان کیا تھا۔ اس کی تفصیل کے لیے مذکورہ حدیث کی طرف مراجعت ضروری ہے، نیز یہ حدیث پہلے (791) بیان ہو چکی ہے لیکن وہاں حضرت حذیفہ ؓ سے بیان کرنے والے زید بن وہب جہنی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے گھر سے نکلے لیکن ابھی راستے میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور اس مقام پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے حضرت ابو وائل شقیق ہیں۔ (عمدة القاري: 4/554،521)(2) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا تھا جو اپنے رکوع و سجود کو پورے طور پر ادا نہیں کرتا تھا جیسا کہ حدیث مسيئ الصلاة میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 793)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 808
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 791
791. حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اسے کہا: تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو اس دین فطرت کے خلاف مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:791]
حدیث حاشیہ: یعنی تیرا خاتمہ معاذ اللہ کفر پر ہو گا۔ جو لوگ سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس طرح خرابی خاتمہ سے ڈرنا چاہئے۔ سبحان اللہ اہل حدیث کا جینا اور مرنا دونوں اچھا۔ مرنے کے بعد آنحضرت ﷺ کے سامنے شرمندگی نہیں۔ آپ کی حدیث پر چلتے رہے جب تک جئے خاتمہ بھی حدیث پر ہوا۔ (مولانا وحید الزماں ؒ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 791
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:791
791. حضرت زید بن وہب سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ رکوع اور سجود کو پورا نہیں کر رہا تھا تو آپ نے اسے کہا: تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تجھے اسی حالت میں موت آ گئی تو اس دین فطرت کے خلاف مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:791]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ ؓ نے اس سے پوچھا: تو کرنے عرصے سے اس طرح نماز پڑھ رہا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ چالیس برس سے اسی طرح نماز پڑھ رہا ہوں۔ (فتح الباري: 256/2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں رکوع اور سجود کو آرام اور سکون سے ادا کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا فرض ہے۔ اس میں کوتاہی کرنا اپنی نماز کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ (2) بعض حضرات کا کہنا ہے کہ رکوع کی حقیقت جھکنا اور سجدے کی حقیقت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے، اگر کوئی اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ لیکن یہ موقف احادیث کے خلاف ہے کیونکہ احادیث میں تعدیل ارکان کی بہت تاکید ہے۔ تعدیل ارکان یہ ہے کہ بدن ہئیت طبعی پر پہنچ جائے اور حرکت انتقال، سکون و اطمینان میں تبدیل ہو جائے۔ (3) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رکوع اور سجود کو ادھورا کرنے والے کے متعلق فرمایا: تو نے نماز نہیں پڑھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسنون طریقے کے خلاف نماز خراب کر کے پڑھنے والے کو فرمایا تھا: ”جاؤ، نماز دوبارہ پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔ “(فتح الباري: 256/2)(4) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ تعدیل و اطمینان ضروری ہے، اس کے بغیر فرض کی ادائیگی نہیں ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 791