ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے؟ آپ نے (جواب کے لیے) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس (ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لیں) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ بھی کہیں گے کہ بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کر سکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہا ہاں! (آپ نے فرمایا) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ پھر ان کی نجات ہو گی۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کر دیا ہے۔ چنانچہ یہ جب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہو گی۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہو گا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے۔ کیونکہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کر دوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا اے میرے رب! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کر دی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ افسوس اے ابن آدم! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا؟ کیا (ابھی) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا۔ بندہ کہے گا اے رب! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں (اللہ تعالیٰ کے سامنے) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو، فلاں چیز کا مزید سوال کرو۔ خود اللہ پاک ہی یاددہانی کرائے گا۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں۔ اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ لیکن ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 806]
هل تمارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فهل تمارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا قال فإنكم ترونه كذلك يحشر الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبع فمنهم من يتبع الشمس ومنهم من يتبع القمر ومنهم من يتبع الطواغيت
هل تضارون في القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال فهل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد القمر
هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر قالوا لا يا رسول الله قال هل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه كذلك يجمع الله الناس يوم القيامة فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس الشمس ويتبع من كان يعبد ا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 806
حدیث حاشیہ: امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔ اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔ ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔ ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔ وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔ اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔ جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔ حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔ نیز حدیث میں ماءالحیاة کا ذکر ہے۔ جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔ آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔ اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔ الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔ ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔ پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 806
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:806
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔ اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب میری سفارش رہ گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔ ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7439) واللہ أعلم۔ (2) اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔ پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔ اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔ (فتح الباري: 556/11 و 481/2)(3) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔ (عمدة القاري: 552/4) واللہ أعلم۔ (4) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔ بإذن اللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 806
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7437
´دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا` «. . . أَنَّ النَّاس قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ . . .» ”. . . لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ:: 7437]
تخريج الحديث: [115۔ البخاري فى: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالىٰ: ”وجوه يومئذ ناضرة۔۔۔“ 22 مسلم 183]
لغوی توضیح: «تُضَارُوْنَ» تم تکلیف محسوس کرتے ہو۔ «صَحْوًا» صاف، جب آسمان پر بادل نہ ہو۔ «الْاَوْثَان» جمع ہے «وَثَن» کی، معنی ہے بت۔ «غُبَّرَات» باقی رہنے والے۔ «سَرَاب» وہ ریت جو دوپہر کو چمک کی وجہ سے پانی معلوم ہوتی ہے۔ «الْحَسْر» پل «مَدْحَضَةٌ مَزِلَّةٌ» دونوں کا ایک ہی معنی ہے، پھسلنے کی جگہ۔ «خَطَاطِيفُ» جمع ہے خطاف کی اور «کـَلالِیب» جمع ہے «كلوب» کی، دونون کا معنی ایک ہی ہے، ایسا لوہا جوسرے سے مڑا ہوا ہو۔ «حَسَكَة» سعدان بوٹی کے کانٹے۔ «اَجَاوِيد» جمع ہے «اَجْوَاد» کی اور «اجَواد» جمع ہے «جَوَاد» کی، معنی ہے تیز رفتار، عمدہ۔ «الْخَيْل» گھوڑے۔ «الرُّكَاب» اونٹ۔ «مَخْدُوش» خراشیں لگے ہوئے، نوچے ہوئے۔ «مَكْدُوْس» دھکیلے گئے۔ «مَنَاشَدَه» مطالبہ۔ «امْتُحِشُوْا» جنہیں جلا دیا گیا۔ «حَافَتَيْه» اس کے دونوں کنارے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 115
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1212
1212- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دوپہر کے و قت جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں سورج کو دیکھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوتی ہے“؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چودھویں رات میں جب بادل موجود نہ ہوں، تو کیا تمہیں چاند کو دیکھنے میں مشکل ہوتی ہے“؟ لوگوں نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، تمہیں اپنے پروردگار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1212]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن لوگوں کو اپنا دیدار کروائیں گے، اس حدیث سے منکرین وجود باری تعالیٰ کا رد ہوتا ہے۔ بات کی پختگی کے لیے قسم کھا نا جائز ہے، اللہ تعالیٰ کلام بھی کرتے ہیں۔ دنیا کی جتنی چیزیں انسان کے تابع ہیں خود انسان ان پر ذرہ برابر بھی طاقت نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ نے ان کو مسخر کیا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن جسم کے تمام اعضاء کو قوت گویائی عطا فرمائے گا۔ اس حدیث سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ہم قیامت اور روز قیامت ہونے والے تمام غیبی معاملات پر ایمان رکھتے ہیں، جنت برحق ہے، جہنم برحق ہے، جنت کی نعمتیں برحق ہیں اور جہنم کی سزائیں برحق ہیں، پل صراط برحق ہے، جنت کے دروازے برحق ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 451
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”چودھویں کا چاند دیکھنے میں (اژدحام کی وجہ سے) ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟“ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا سورج جب اس کے ورے بادل حائل نہ ہوں، دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کو بھی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:451]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) تُضَارُّونَ: ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا، باب مفاعلہ سے ہے، جو ضر (تکلیف پہنچانا یا نقصان پہنچانا) سے ماخوذ ہے۔ اگر ضَرَّ، يَضُرُّ ضَرًّا سے مانیں تو معنی ہو گا: دکھ اور تکلیف پہنچنا اور مضارع مجہول ہو گا، مفاعلہ کی صورت میں معروف ہو گا۔ اور مفاعلہ کی صورت میں (ر) مشدد ہو گی اصل میں ہے تضاررون۔ (2) الطَّوَاغِيتُ: طَاغُوْتٌ کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا، ہر معبود پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، وہ جاندار ہو یا بے جان۔ (2) يُضْرَبُ الصِّرَاطُ: پل بچھا دیا جائے گا۔ (4) أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ: جوز سے ماخوذ ہے، کسی مقام سے آگے بڑھنا، مسافت طے کرنا۔ جَازَ الْمَكَانَ اور أَجَازَ الْمَكَانَ دونوں کا معنی ایک ہے، گزرنا، آگے بڑھنا۔ (5) كَلَالِيبٌ: كلاب کی جمع ہے، لوہے کی مڑے ہوئے سر کی سلاخ، آنکڑا، جس پر گوشت بھونا جاتا ہے۔ (6) شَوْك السَّعْدَانِ: شَوْكٌ کی جمع أَشْوَاكٌ کانٹا، سعدان ایک خاردار جھاڑی ہے جس کے کانٹے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ (7) بَقِيَ بِعَمَلِهِ: اپنے عمل کے سبب بچ گیا، لیکن ہندوستانی و پاکستانی نسخوں میں الموبق بعمله ہے۔ جو وبق (ہلاکت و تباہی) سے ماخوذ ہے، یعنی عملوں کے سبب ہلاک ہو کیا گیا۔ (8) الْمُجَازَى: جزاء سے ماخوذ ہے، بدلہ دیا گیا۔ (9) قَدِ امْتَحَشُوا: مَخُشَ سے ماخوذ ہے، چمڑے کا جل کر ہڈی کا ننگا ہو جانا۔ یعنی وہ جل چکے ہوں گے۔ (10) حَبَّةٌ (ح) پر زیر ہے، جمع حِبَبٌ، قدرتی بیج۔ (11) قَشَبَنِي: قشب سے ماخوذ ہے، کھانے میں زہر ملانا۔ یعنی مجھ میں زہر بھر دی ہے، میرے لیے اذیت و تباہی کا باعث ہے۔ یا بقول بعض میری شکل و صورت کو بدل دیا ہے۔ فوائد ومسائل: (1) قیامت کو جنت میں جانے سے پہلے ہی مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا، آغاز میں منافق بھی ساتھ ہوں گے، لیکن پھرمومنوں اور منافقوں کے درمیان آڑ حائل ہوجائے گی، جیسا کہ سورۂ حدید: 13 میں آیا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صورت ہے جس میں دیکھ کر مومنوں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے، اس صورت کے بغیر ان کے دلوں میں اس کا یقین پیدا نہیں ہوگا، اس لیے وہ اس کے اللہ تعالیٰ ہونے پر مطمئن نہیں ہوں گے اور انکار کر دیں گے۔ (3) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو چودھویں رات کے چاند، یا صاف سورج کے دیکھنے سے تشبیہ دی گئی؟ اس طرح رؤیت کی رؤیت سے تشبیہ ہے، رؤیت دیدار مرئی دیکھی ہوئی چیزی یعنی اللہ تعالیٰ کی سورج وقمر سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو سورج وچاند کے دیکھنے سے تشبیہ دی ہے، کہ دیکھنے میں کوئی اژدھام اور تکلیف ومشقت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کو چاند اور سورج سے تشبیہ نہیں دی ہے۔ مقصد یہ ہے جس طرح چاند اور سورج کے دیکھنے کے لیے اژدھام اور دھکم پیل کی صورت پیدا نہیں ہوتی، ہر انسان بغیر کسی وقت وتکلیف کے اپنی اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار ہر مومن کو اپنی اپنی جگہ ہوجائے گا، بھیڑ اور دھکم پیل نہیں ہوگی، اور کسی کو اذیت وتکلیت سے دوچار نہں ہونا پڑے گا۔ (4) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ضحك (ہنسی) اتیان (آمد) صورت (شکل) اور گفتگو (قول وکلام) کا اثبات کیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے متصف ہے، لیکن ان کی کیفیت وصفت کو بیان کرنا ممکن ہے، اس لیے تشبیہ وتمثیل یا تاویل وتعطیل درست نہیں ہے۔ خالق کی صفات، اس کے شایا ن شان ہیں۔ اور مخلوق کی صفات ان کی حیثیت اور مقام کے مطابق ہیں، اس لیے صفات کے اثبات سے تشبیہ وتمثیل لازم نہیں آتی۔ (5) اس حدیث میں جہنم کی پشت پر پل لگانے کا تذکرہ ہوا جس سے لوگوں نے گزرنا ہے، اس کو ہولناکی کی بنا پر انبیاءؑ بھی "سَلِّمْ سَلِّمْ" بچا بچا کی صدا بلند کریں گے۔ (پل کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی)(6) جہنم میں داخلہ کے بعد موحد انجام کار دوزخ سے نکال لیے جائیں گی، اس کی تفصیل احادیث شفاعت میں آئے گی۔ (7) جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ واضح طور پر اللہ تعالی کے لیے کلام ثابت کر رہا ہے، اور یہ کلام لفظی ہے، جس کو وہ فرد سنے گا اورجواب دے گا، اس لیے متکلمین کی طرح صفت کلام میں تاویل کرنا درست نہیں ہے، کہ اللہ کا کلام، کلام نفسی ہے جو حروف وصورت سے خالی ہے، کیونکہ کلام نفسی کو تو دوسرا سن نہیں سکتا۔