ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر حد سے تجاوز کرنے والا اور کون ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے، ذرا وہ چنے کا دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں یا گیہوں کا ایک دانہ یا جَو کا ایک دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7559]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7559
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ حیوان بنانا تو بہت مشکل ہے بھلا نباتات ہی کی قسم سےجو حیوان سے ادنیٰ تر ہے کوئی دانہ یا پھل بنا دیں۔ جب نباتات بھی نہیں بنا سکتے تو بھلا حیوان بنائیں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7559
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7559
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حیوان بنانا تو بہت مشکل ہے نباتات کی قسم سے کوئی دانہ یا جَو پیدا کر دیں۔ جب وہ بناتات نہیں بنا سکتے تو حیوانات کیا بنائیں گے۔ اس سے مقصد انھیں کبھی تو حیوان پیدا کرنے کے ساتھ عاجز کرنا ہے کہ وہ چیونٹی پیدا کریں اور کبھی جامد چیز کی پیدائش سے انھیں عاجز کرنا ہے کہ وہ ایک جو ہی پیدا کر کے دیکھائیں۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ان کی طرف خلق کی نسبت کرنا انھیں عاجز کرنے کے لیے ہے حالانکہ وہ تو خود مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں پیدا کرنے والا ہے بلکہ ان کے افعال و کردار کا بھی وہی خالق ہے چونکہ وہ اپنے افعال اپنے اختیار سے بجا لاتے ہیں اس بنا پر وہ جزا و سزا کے حق دار ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7559
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5543
ابو زرعہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مروان کے گھر گیا، انہوں نے وہاں تصویریں دیکھیں تو کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو میری تخلیق جیسی تخلیق کرنے لگتا ہے؟ وہ ایک ذرہ پیدا کریں، یا دانہ ہی پیدا کریں یا جو پیدا کریں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5543]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ انسان بے جان اشیاء ذرہ، دانہ گندم جو پیدا نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ اس کو زمین میں کاشت کرتا ہے، پیدا اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے تو وہ زندہ اشیاء کی تصویر کشی کی جراءت کیوں کر کرتا ہے، ہمت ہے تو ان میں جان ڈالے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5543
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5953
5953. حضرت ابو زرعہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ طیبہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ہمراہ ایک گھر میں داخل ہوا تو ایک مصور کو دیکھا جو چھت پر تصویریں بنا رہا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح چیزیں پیدا کرنے چلا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایک دانہ یا ایک چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک پانی کا برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ بغلوں تک دھوئے میں نے عرض کی: اے ابو ہریرہ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5953]
حدیث حاشیہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے گویا اس حدیث سے استنباط کیا جس میں یہ ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے لوگ سفید پیشانی، سفید ہاتھ پاؤں وضو کی وجہ سے اٹھیں گے تو جہاں تک وضو میں اعضاء زیادہ دھوئے جائیں گے وہیں تک سفیدی پہنچے گی یا اس آیت سے استنباط کیا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ (الکھف: 31) یعنی جنت میں اہل جنت کو سونے کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ حضرت ابوہریرہ کا نام عبدالرحمن بن صخر ہے۔ غزوئہ خیبر کے سال اسلام لائے، خدمت نبوی میں ہر وقت حاضر رہتے۔ مدینہ میں سنہ 59ھ بعمر 75 سال وفات پائی۔ 5274 احادیث بنوی کے حافظ تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5953
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5953
5953. حضرت ابو زرعہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں مدینہ طیبہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے ہمراہ ایک گھر میں داخل ہوا تو ایک مصور کو دیکھا جو چھت پر تصویریں بنا رہا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی طرح چیزیں پیدا کرنے چلا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایک دانہ یا ایک چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں۔“ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک پانی کا برتن منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھ بغلوں تک دھوئے میں نے عرض کی: اے ابو ہریرہ! کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نے جہاں تک زیور پہنا جا سکتا ہے وہاں تک دھویا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5953]
حدیث حاشیہ: (1) حدیث کے عموم میں ہر تصویر داخل ہے، خواہ مجسم ہو یا غیر مجسم۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جس تصویر کو دیکھ کر یہ حدیث بیان کی وہ غیر مجسم تصویر تھی جو مصور، چھت پر بنا رہا تھا۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ کپڑے کی تصویر کو جائز خیال کرتے ہیں اور ان تصویروں کو ناجائز کہتے ہیں جن کا جسم ٹھوس ہو، اس حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے کیونکہ چھت پر بنی تصویروں کا کوئی جسم نہ تھا۔ (2) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے موقع پر حکم دیا تھا کہ وہ کعبہ میں جائیں اور اس میں موجود سب تصویروں کو مٹا دیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے جب تک انہیں ختم نہیں کیا گیا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4156) تصویر کو دو صورتوں میں رکھا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اسے درخت کی طرح بنا دیا جائے دوسری صورت یہ ہے کہ اسے پاؤں تلے روندا جائے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4158) تصویروں والا کپڑا بھی اس انداز سے استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں تصویروں کی بے قدری کا اظہار ہو، مثلاً: بستر پر بچھانے والی چادر یا بیٹھنے کے لیے کرسیوں کی گدیاں وغیرہ بنا لی جائیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5953