اور زہری نے کہا اللہ کی طرف سے پیغام بھیجنا اور اس کے رسول پر اللہ کا پیغام پہنچانا اور ہمارے اوپر اس کا تسلیم کرنا ہے۔ اور (سورۃ الجن) میں فرمایا «ليعلم أن قد أبلغوا رسالات ربهم»”اس لیے کہ وہ پیغمبر جان لے کہ فرشتوں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔“ اور (سورۃ الاعراف) میں (نوح علیہ السلام اور ہود علیہ السلام کی زبانوں سے) فرمایا «أبلغكم رسالات ربي»”میں تم کو اپنے مالک کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔“ اور کعب بن مالک جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لے گا اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔ اور معمر نے کہا (سورۃ البقرہ میں) یہ جو فرمایا «ذلك الكتاب» تو کتاب سے مراد قرآن ہے۔ «هدى للمتقين» وہ ہدایت کرنے والا ہے یعنی سچا راستہ بتانے والا ہے پرہیزگاروں کو۔“ جیسے (سورۃ الممتحنہ) میں فرمایا «ذلكم حكم الله»”یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی شک نہیں“ یعنی بلا شک یہ اللہ کی اتاری ہوئی آیات ہیں یعنی قرآن کی نشانیاں (مطلب یہ ہے کہ دونوں آیات میں «ذلك» سے «هذا» مراد ہے) اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے (سورۃ یونس میں) «وجرين بهم» سے «وجرين بكم» مراد ہے اور انس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ماموں حرام بن ملحان کو ان کی قوم بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام نے ان سے کہا کیا تم مجھ کو امان دو گے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام تم کو پہنچا دوں اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7530]
ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے بیان کیا، ان سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر بن حیہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے (ایران کی فوج کے سامنے) کہا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے رب کے پیغامات میں سے یہ پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو (فی سبیل اللہ) قتل کیا جائے گا وہ جنت میں جائے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7530]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7530
حدیث حاشیہ: یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایرانی فوج کے سامنے پر جوش تقریر کی تھی۔ جب ایرانی کمانڈر نے پوچھا تھا کہ تم کون ہو اور تمہارا کیا مقصد ہے؟ مذکورہ اقتباس اس تقریر سے ہے جو حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کی تھی۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3159) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امر، نہی، وعدہ، وعید اور گزشتہ اقوام کے حالات وواقعات آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے وہ کماحقہ ہم تک پہنچا دیے۔ پیغامات کا پہنچانا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور عمل ہے اور یہ رسالت کے علاوہ ہے اور ابلاغ مخلوق ہے جبکہ رسالت اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر مشتمل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7530