ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے تو میں چاہتا ہوں اگر اللہ نے چاہا کہ اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7474]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7474
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دعا صرف اہل توحید کے حق میں قبول ہوگی۔ مشرکین کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ہے۔ “ ان شاء اللہ وہ دعا ان کے لیے قبول ہو گی جنھیں اس حالت میں موت آئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں گے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 491۔ (199) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف رکھا ہےاگرچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دے رکھی ہے کہ وہ ضرور قبول ہوگی۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کوکوئی مجبور نہیں کر سکتا جیسا کہ انسان کو اس کی چاہت کے بغیر بھی کوئی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہےاللہ تعالیٰ کائنات کا مالک ہے۔ وہ اس کا نظام چلانے میں کسی کا محتاج نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7474
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 445
´امت کی شفاعت کے لئے دعا باقی ہے` «. . . 335- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لكل نبي دعوة يدعو بها، فأريد أن أختبيء دعوتي شفاعة لأمتي فى الآخرة.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو ایک (مقبول ہونے والی) دعا عطا کی گئی تھی جسے اس نبی نے مانگ لیا اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھ دوں۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 445]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6304، من حديث مالك به] تفقه: ➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی اُمت (مسلمانوں) کے لئے اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاعت (سفارش) کرنا برحق ہے۔ اسے درج ذیل صحابۂ کرام نے بھی روایت کیا ہے: ◄ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 6305، صحيح مسلم: 200] ◄ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 201] ◄ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 202] ◄ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ [الشريعه للآجري ص338 ح780 وسنده صحيح] ◄ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ [أحمد 2/11، 12، وسنده حسن، ابن ماجه: 4280 وصححه الحاكم عليٰ شرط مسلم 4/585، 586] ◄ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا [المستدرك للحاكم 1/68 ح227 وسنده صحيح وصححه الحاكم عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي] وغیرہم۔ ● بلکہ شفاعت والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے [نظم المتناثر للكتاني ح304] ➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت پر بے حد مہربان تھے اور اللہ نے آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ ➌ ہر نبی کی ایک دعا قطعی طور پر عند اللہ مقبول ہوتی رہی ہے اور نبی کو اس دعا کا علم بھی ہوتا تھا۔ ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام نبیوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ➎ جو مسلمان شرک وکفر نہ کرے، اگرچہ کتنا ہی گناہگار ہو جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 335
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6304
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے کمال شفقت و رحمت کا اثبات` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا، وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الْآخِرَةِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے (جو قبول کی جاتی ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔“ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ/بَابُ وَلِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ: 6304]
تخريج الحديث: [121۔ البخاري فى: 97 كتاب التوحيد: 31 باب قوله تعالىٰ ”قل لو كان البحر۔۔۔“ 6304، مسلم 198] لغوی توضیح: «لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ» ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے، مراد یہ ہے کہ ہر نبی کو ایک لازماً قبول ہونے والی دعا کا اختیار دیا گیا۔ «اَخْتَبِئَ دَعْوَتِيْ» میں نے اپنی دعا چھپالی، محفوظ رکھ لی۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے کمال شفقت و رحمت کا اثبات ہے کہ آپ نے اپنے لیے کچھ مانگنے کی بجائے اس مقبول دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لیے مؤخر کر دیا۔ لیکن آج یہی امت اپنے مشفق و محسن پیغمبروں کی سنتوں کو پس پشت ڈال رہی ہے اور شب و روز ان کی مخالفت میں مصروف ہے۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے عظیم پیغمبر کی مخالفت سے بچنے کی توفیق دے۔ (آمین!)
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 121
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 20
´ہر نبی کے لیے ایک دعائے مستجاب` اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے۔ پس ان شاء اللہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو قیامت تک اپنی امت کی شفاعت کے لیے ملتوی اور مؤخر رکھوں۔“[صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 20]
شرح الحديث: "ابن بطال اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: «وفي هذا الحديث بيان فضيلة نبينا عليه السلام على سائر الأنبياء عليهم السلام حين آثر أمته بما خصه الله به من اجابة الدعوة بالشفاعة لهم، ولم يجعل ذلك فى خاصة نفسه وأهل بيته .»[شرح صحيح بخارى، لابن بطال: 75/10] "اس حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو آپ کو تمام رسولوں پر حاصل ہے کہ آپ نے اس مخصوص دعا کے لیے ساری امت کی خاطر اپنے نفس اور اپنے اہل بیت کے لیے ایثار فرمایا۔ "
امام نووى رحمة الله عليه فرماتے ہیں: «وفي هذا الحديث بيان كمال شفقة النبى صلى الله عليه وسلم على أمته ورأفته لهم وأعتنائه بالنظر فى مصالحهم المهمة فأخر صلى الله عليه وسلم دعوته لأمته إلى أهم أوقات حاجاتهم ...... ففيه دلالة لمذهب أهل الحق أن كل من مات غير مشرك بالله تعالىٰ لم يخلد فى النار وان كان مصر على الكبائر .»[شرح صحيح مسلم، للنوى: 63/3] "اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے امت پر شفقت کا اظہار ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ مقبول دعا امت کی شفاعت کے لیے قیامت کی مشکل گھڑیوں تک ملتوی کر رکھی ہے......اس میں ان پر بھی دلیل ہے کہ اہل سنت میں سے جو شخص خالص توحید پر مرا اور الله کے ساتھ شرک نہ کیا، وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا، اگرچہ وہ کبائر پر اصرار کرتا ہوا مر جائے۔ "
کسی بھی کام پر ان شاء الله کہنا: حدیث میں مذکورہ کلمہ «إِنْ شَآءَ اللهُ» "اگر الله نے چاہا۔ " الله کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے ہے، کیونکہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم فرمایا: «وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا * إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ»[الكهف: 23 ,24] "اور آپ کسی کام کے متعلق ہرگز نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا، یوں کہیے کہ "ان شاء الله" اگر الله چاہے گا (تو کروں گا)۔ "
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 20
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4307
´شفاعت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کی (اپنی امت کے سلسلے میں) ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے، تو ہر نبی نے جلدی سے دنیا ہی میں اپنی دعا پوری کر لی، اور میں نے اپنی دعا کو چھپا کر اپنی امت کی شفاعت کے لیے رکھ چھوڑا ہے، تو میری شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہو گی جو اس حال میں مرا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا رہا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4307]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) اللہ تعالی نے ہر نبی کو یہ فرمایا کہ تمھاری ایک دعا لازما قبول ہوگی۔ یہی وعدہ ہمارے نبیﷺ کے لیے بھی ہے۔
(2) دعا کی قبولیت اللہ کی مشیت پہ منحصر ہے۔ وہ چاھے تو کسی برے سے برے آدمی کی دعا بھی قبول کر لے چاہے تو نبی کی دعا بھی قبول نہ کرے۔
(3) ہر نبی نے کسی نہ کسی موقع پہ دعا کی درخواست کی۔ اے اللہ! میری فلاں خواہش کو وہ دعا قرار دیا جائےجو لازما قبول ہونے والی ہے چناچہ اس نبی کی دعا قبول کرکےوہ خوایش پوری کر دی گئی۔
(4) نبیﷺ نے کسی دعا کو وہ دعا قرار نہیں دیا جس کی قبولیت کا وعدہ ہے اس لیے اس دعا کا حق ابھی باقی ہے۔
(5) نبیﷺ نے اپنی امت کی مغفرت کے لیے شفاعت کو اپنی وہ خصوصی دعا قرار دیا یہ دعا قیامت کے دن کی جائیگی اور اہل توحید کے لیے لازماً قبول ہوگی۔
(6) نجات کے لیے توحید پہ وفات ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4307
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3602
´ «لا حول ولا قوة إلا بالله» کی فضیلت کا بیان` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے، اس دعا کا فائدہ ان شاءاللہ امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہو گا جس نے مرنے سے پہلے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3602]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ہر اس شخص کو اللہ کے رسولﷺکی شفاعت نصیب ہوگی جس نے کسی قسم کا شرک نہیں کیا ہو گامشرک خواہ غیرمسلموں کا ہو، یا نام نہاد مسلمانوں کا شرک کے مرتکب کویہ شفاعت نصیب نہیں ہوگی، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حق مذہب وہی ہے جس کے قائل سلف صالحین ہیں، یعنی موحد گناہوں کے سبب ہمیشہ ہمیش جہنم میں نہیں رہے گا، گناہوں کی سزا بھگت کر آخری میں جنت میں جانے کی اجازت مل جائے گی، الا یہ کہ توبہ کر چکا ہو تو شروع ہی میں جنت میں چلا جائے گا، ان شاء اللہ۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3602
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 487
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کی ایک دعا ہے (جسے اللہ تعالیٰ یقینی طور پرقبول فرمائے گا) جسے وہ کرتا ہے، تو میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:487]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ نے ہر نبیؑ کو یہ حق دیا ہے، کہ اس کی ایک دعا ضرور قبول فرمائے گا، اورباقی دعائیں ان کےقبول ہونے کی امیدہوتی ہے، لیکن بعض قبول ہوتی ہیں اوربعض ظاہری طورپرقبول نہیں ہوتیں۔ نبی اکرم ﷺ اپنی امت کے لیے اس قدرشفیق ومہربان ہیں کہ آپ ﷺنے وہ دعا اس جہان فانی دنیا میں نہیں، بلکہ آخرت میں جب کہ ہر ایک دوسرے سے بھاگ رہا ہو گا، ایسے افراتفری کے عالم میں، امت کی نجات کی سفارش کی خاطروہ دعافرمائیں گے، تو پھر امت کےلیے یہ کس قدر افسوسناک مقام ہے، کہ وہ ایسےرحیم وکریم نبی ﷺ کی اطاعت وفرمانبرداری سے بےرخی اوراعراض کا رویہ اختیارکرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 487
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 491
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے لیے ایک مقبول دعا ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھپا رکھا ہے، جب کہ ہر نبی جلدی کرتے ہوئے (دنیا میں) دعا کر چکا ہے۔ میری شفاعت ہر اس انسان کو حاصل ہو گی ان شاء اللہ! جو میری امت سے اس حال میں فوت ہو گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہوگا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:491]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ شرک یعنی: اللہ تعالیٰ کی ذات صفات، افعال اورحقوق میں کسی کو شریک ٹھہرانا، اس قدرگھناؤنا جرم ہے کہ ایسا انسان قیامت کےدن آپ کی شفاعت سےمحروم ہوگا، لیکن کبیرہ گناہ کا مرتکب، سفارش کا حقدار ہو گا اور ایک نہ ایک وقت جہنم سےنجات پاجائےگا۔