ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن ابی حسین نے، کہا ہم سے نافع بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسیلمہ کے پاس رکے، وہ اپنے حامیوں کے ساتھ مدینہ میں آیا تھا اور اس سے فرمایا کہ اگر تو مجھ سے یہ لکڑی کا ٹکڑا بھی مانگے تو میں یہ بھی تجھ کو نہیں دے سکتا اور تمہارے بارے میں اللہ نے جو حکم دے رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور اگر تو نے اسلام سے پیٹھ پھیری تو اللہ تجھے ہلاک کر دے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7461]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7461
حدیث حاشیہ: مسیلمہ کذاب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور بہت سےلوگ اس کے پیرو ہوگئے تھے۔ وہ لوگوں کو شعبدہ دکھا دکھا کر گمراہ کرتا تھا۔ وہ مدینہ آیا اور آنحضرت ﷺ سے یہ درخواست کی کہ اگر آپ اپنے بعد مجھ کوخلیفہ کر جائیں تومیں اپنے ساتھیوں کےساتھ آپ پرایمان لے آتا ہوں۔ اس وقت آ پ نے یہ حدیث فرمائی کہ خلافت تو بڑی چیز ہے میں ایک چھڑی کا ٹکڑا بھی تجھ کو نہیں دوں کا۔ آخر مسیلمہ اپنے ساتھیوں کو لے کر چلا گیا اور یمامہ کے ملک میں اس کی جماعت بہت بڑھ گئی۔ حضرت صدیق اکبر نے اپنے عہدخلافت میں اسی پر لشکر کشی کی جس میں آخر مسلمان غالب آئے اوروحشی نے اسے قتل کیا، اس کے سب ساتھی تتر بتر ہوگئے۔ حدیث میں امراللہ کا لفظ آیا ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7461
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7461
حدیث حاشیہ: 1۔ مسیلمہ کذاب نے یمامہ کے علاقے میں نبوت کا دعوی کیا اور یہ انتہائی شعبدہ باز انسان تھا۔ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے پیروکار ہو گئے۔ وہ بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر مدینہ طیبہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیں تو میں اپنے ساتھیوں سمیت آپ پر ایمان لے آتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس وقت کھجور کی چھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خلافت تو بڑی چیز ہے میں تجھے چھڑی کا یہ ٹکڑا بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ “(صحیح البخاري، حدیث4373) آخر کار مسیلمہ کذاب اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس یمامہ چلا گیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس کے خلاف لشکر کشی کی جس میں مسلمان غالب آئے اور اسے حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کر کے جہنم پہنچا یا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3620) اس حدیث میں ہے کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کر رکھا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ “ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس جملے سے عنوان ثابت کیا ہے یعنی تیرے وجود سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تیری بد بختی اور شقاوت کا جو فیصلہ کیا ہے تو اس سے سر موانحراف نہیں کرے گا۔ اس مقام پر امراللہ سے مراد اس کا کونی اور قدری امر ہے شرعی اور تکلیفی امر مراد نہیں ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان 242/2) دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے معتزلہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر جو اللہ تعالیٰ کے کلام سے عبارت ہے وہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے اگر چہ اللہ تعالیٰ نے پیش کردہ آیت کریمہ میں اس امر اور قول سے خود کو موصوف کیا ہے تاہم یہ اسلوب اور انداز سرا سر مجاز ہے حقیقت پر مبنی نہیں جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام جس سے ذات باری تعالیٰ متصف ہے وہ غیر مخلوق ہے تاہم اس کا تعلق مخلوق سے حادث ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہے۔ (عمدة القاري: 856/18)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7461