ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درخت اور نہروں کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا۔ پھر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور یہ آیت پڑھی «وما قدروا الله حق قدره»(جو سورۃ الزمر میں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7451]
يوم القيامة جعل الله السموات على إصبع والأرضين على إصبع والماء والثرى على إصبع والخلائق على إصبع ثم يهزهن ثم يقول أنا الملك أنا الملك فلقد رأيت النبي يضحك حتى بدت نواجذه تعجبا وتصديقا لقوله ثم قال النبي وما قدروا الله حق قدره إلى قوله ي
الله يمسك السموات على إصبع والأرضين على إصبع والشجر والثرى على إصبع والخلائق على إصبع ثم يقول أنا الملك أنا الملك قال فرأيت النبي ضحك حتى بدت نواجذه ثم قرأ وما قدروا الله حق قدره
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7451
حدیث حاشیہ: اللہ کے لیے انگلی کا اثبات ہواجس کی تاویل کرنا طریقہ سلف صالحین کے خلاف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7451
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7451
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7451باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ کا بظاہر باب سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت اس باب میں نہیں ہے اور نہ اس جگہ پر موجود ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ «امساك السمٰوٰت» یعنی ”آسمانوں کا تھامنا“ سابقہ باب سے ثابت فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں کو تھامنا دراصل اس کی رحمت کے ساتھ ملحق ہے، سابقہ باب جو اللہ تعالیٰ کی رحمت پر قائم فرمایا ہے ممکن ہے کہ اس باب میں اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہو کیوں کہ سابقہ باب صفۃ الرحمۃ کے ساتھ دلیل رکھتا ہے، اس مناسبت کی توجیہ کا اشارہ قرآن مجید کی آیت کے ذریعے بھی ممکن ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: « ﴿وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ »[الحج: 65] ”وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا اور مہربان ہے۔“ آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو اپنی رحمت سے تھامے ہوئے ہے، اور یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ امساک کی تفسیر جو آیت میں ہے حدیث کے ذریعے کر رہے ہوں۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7451
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں۔ "اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی سے روک لے گا اور زمینوں کو دوسری انگلی پر۔ " (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7414) یعنی آیت اور حدیث میں آسمانوں اور زمین کو روک لینے کا ذکر ہے۔ (فتح الباري: 541/13) 2۔ ہمارے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی ہیں جن سے باری تعالیٰ ازل سے ابد تک متصف ہے جیسا کہ سمع بصر اور علم وغیرہ اور بعض صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے پر موقوف ہیں۔ ان میں سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صفت کا ذکر کیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کو تھامے ہوئے ہے۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ انھیں اپنی انگلیوں پر رکھ کر جھٹکا دے گا اور کہے گا۔ میں ہی بادشاہ ہوں آج متکبر و جبار اور بادشاہ کہاں ہیں؟3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان برسر عام کرتے تھے اور سامعین کو سمجھانے کے لیے عملی مظاہرہ بھی کرتے تھے جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صفات کا بیان عام لوگوں کے سامنے نہ کیا جائے حالانکہ یہ موقف سیرت نبوی کے خلاف ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ یہودی عالم کے بیان کی تصدیق کے لیے تلاوت فرمائی کیونکہ اس آیت میں قیامت کے دن زمین و آسمان کی وہی کیفیت بیان ہوئی ہے جسے یہودی عالم نے اپنے انداز سے بیان کیا تھا۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 202/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7451
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4811
4811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اے محمد! ہم (تورات میں) پاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا، اس طرح تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، دریاؤں اور سمندروں کو ایک انگلی پر، گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی ﷺ یہ سن کر ہنس دیے حتی کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق کے لیے تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ”اور ان لوگوں کو جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4811]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے پرورد گار کے لئے انگلیاں ثابت ہوتی ہیں کیونکہ آنحضرت نے اس یہودی کی تصدیق کی اور یہ امر محال ہے کہ آنحضرت باطل کی تصدیق کریں۔ اب بعضے لوگوں کا یہ کہنا تصدیقا له راوی کا گمان ہے جو اس نے اپنے گمان سے کہہ دیا۔ حالانکہ آنحضرت تصدیق کی راہ سے نہیں ہنسے تھے بلکہ اس یہودی کی بات کو غلط جان کر، کیونکہ یہود مشبہہ اور مجسمہ تھے۔ وہ اللہ کے لئے انگلیاں وغیرہ ثابت کرتے تھے، صحیح نہیں ہے کہ اس لئے کہ فضیل بن عیاض نے منصور سے روایت کی اس میں یہ بھی ہے تعجبا منا قاله الحبر وتصدیقا له۔ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ دوسری صحیح حدیث میں ہے۔ ما من قلب إلا وھو بین أصبعین من أصابع الرحمن اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث میں ہے أَتانيَ اللیلةَ ربي في أحسنِ صورة فوضع یدہ بین کتفي حتی وجدت برد أناملهِ بینَ ثدیي۔ انامل انگلیوں کی پوریں۔ غرض انگلیوں کا اثبات پرورد گار کے لئے ایسا ہی ہے جیسے وجہ اور یدین اور قدم اور رجل اور جنب وغیرہ کا اور اہلحدیث کا عقیدہ ان کی نسبت یہ ہے کہ یہ سب اپنے معنی ظاہر ی پر محمول ہیں لیکن ان کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے اور متکلمین ان چیزوں کی تاویل کرتے ہیں قدرت وغیرہ سے۔ میں کہتا ہوں محمد بن صلت راوی نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت اپنی چھنگلیاں کی طرف اشارہ کیا پھر پاس والی انگلی کی طرف پھر اس کے پاس والی انگلی کی طرف، یہاں تک کہ انگوٹھے تک پہنچے اور اس سے اہل تاویل کا مذہب رد ہوتا ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4811
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7414
7414. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے محمد! یقیناً اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر روک لے گا تمام زمینوں کو دوسری انگلی پر، پہاڑوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر اور دیگر مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا۔ میں بادشاہ ہوں۔ رسول اللہﷺ یہ سن کر ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں دکھائی دینے لگیں پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔“ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ یہودی کی بات پر تعجب کرتے ہوئے اور اسکی تصدیق کرتے ہوئے ہنس پڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7414]
حدیث حاشیہ: اللہ کے واسطے اس کی شان کےمطابق انگلیوں کا اثبات ہوا۔ حدیث سےاللہ کے لیے پانچوں انگلیوں کا اثبات کرتے۔ پس اللہ پر اس کی جملہ صفات کےساتھ بغیر تاویل وتکلیف ایمان لانا فرض ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7414
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7415
7415. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھے گا تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درخت اور گیلی مٹی ایک انگلی اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”انہوں نے اللہ کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7415]
حدیث حاشیہ: آگے مذکورہے (وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) اس دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی۔ سلف صالحین نےان صفات کی تاویل کوپسند نہیں فرمایا ہے۔ و ھذا ھو الصراط المستقیم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7415
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7513
7513. سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7513]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بھی اللہ پاک کا کلام کرنا مذکور ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل کتاب کی سچی باتوں کی تصدیق کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کو ہنسی اس بات پر آئی کہ ایک یہودی اللہ کی شان کس کس طورپربیان کر رہا ہے حالانکہ یہود وہ قوم ہے جس نےاللہ پاک کی قدرومتزلت کوکما حقہ نہیں سمجھا اورحضرت عزیرؑ کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا حالانکہ اللہ پاک ایسے رشتوں ناطوں سےبہت ارفع واعلیٰ ہے۔ صدق لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد-
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7513
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4811
4811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: علمائے یہود میں سے ایک عالم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اے محمد! ہم (تورات میں) پاتے ہیں کہ اللہ تعالٰی آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا، اس طرح تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، دریاؤں اور سمندروں کو ایک انگلی پر، گیلی مٹی کو ایک انگلی پر اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ نبی ﷺ یہ سن کر ہنس دیے حتی کہ آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق کے لیے تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: ”اور ان لوگوں کو جیسی قدر اللہ تعالٰی کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4811]
حدیث حاشیہ: 1۔ محدثین اورسلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر قرآن و حدیث میں ہے جیسا کہ آیت کریمہ میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے، ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل وتحریف، ایمان رکھنا ضروری ہے، اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو محض غلبہ وقوت میں لینا صحیح نہیں۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےمسکرا کر اس یہودی عالم کی بیان کردہ حقیقت پر مہر تصدیق ثبت فرمائی، اس لیے اس بیان کو حقیقت پر محمول کرنا چاہیے۔ اس کی مزید تفصیل کتاب التوحید حدیث: 7414،7415۔ کے فوائد میں بیان ہوگی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7415
7415. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: اہل کتاب میں سے ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ابو القاسم! اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھے گا تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، درخت اور گیلی مٹی ایک انگلی اور دیگر تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھے گا، پھر فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو دیکھا آپ ہنس دیے حتی کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”انہوں نے اللہ کی قدر کرنے کا حق ادا نہیں کیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7415]
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور ہاتھوں کی انگلیاں ہیں جن کی صراحت ان احادیث میں بیان ہوئی ہے لیکن علامہ خطابی فرماتے ہیں، انگلیوں کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور نہ کسی قطعی الثبوت حدیث ہی میں ان کی وضاحت ہے، علاوہ ازیں ہاتھ سے مراد بھی عضو نہیں کہ اس کے ثابت ہونے سے انگلیوں کا ثبوت فراہم ہو۔ مذکورہ احادیث میں انگلیوں کا ذکر یہودی عالم کی کارستانی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بات پر ہنسنا یہ انکار کے طور پر تھا۔ راوی کا یہ اپنا گمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق کرتے ہوئے ہنسےتھے۔ اس گمان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ (اعلام الحدیث: 1903/3) 2۔ ہمیں علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ جیسے محدث سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ صفات باری تعالیٰ کے متعلق تاویل کرنے والوں کی ہمنوائی میں اس حد تک تجاوز کرجائیں گے۔ ہمارے نزدیک انگلیوں کا ذکر بایں طور پر قرآن مجید میں ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”جو چیز تمھیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کر دے اس سے رُک جاؤ۔ “(الحشر: 7) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں، ہتھیلی، دائیں ہاتھ اور مٹھی وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں بلکہ قرآن مجید ہے: (بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ) ”بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ “(المآئدة: 64) اس کے علاوہ دیگر آیات بھی پیش کی جا سکتی ہیں، پھر مذکورہ قطعی الثبوت احادیث میں انگلیوں کا ذکر ہے۔ جب صحیح احادیث میں کسی بات کا ذکر ہوتو اس کا قبول کرنا ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق اعمال سے ہو یا عقائد سے لیکن اہل بدعت کا کہنا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کا ذکر قرآن میں یا متواتر احادیث میں ہونا ضروری ہے۔ ان کا یہ قاعدہ خود ساختہ اور محدثین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ 3۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان صفات کا ذکر کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب وہی تھے جو عربی زبان سمجھتے اور اس کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ کسی ضعیف حدیث سے یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ کسی ضعیف حدیث سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطبین کو نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عمل نہ کرنے کی تلقین کی ہو۔ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ باور کہا جا سکتا ہے کہ وہ بندوں سے ایسا خطاب کریں جس کا ظاہری مفہوم کفرہو؟ جیسا کہ تاویل کرنے والوں کا کہنا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ ہم تسلیم ورضا پر عمل کرتے ہوئے ان نصوص کے ظاہری مفہوم کے مطابق عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے دو حقیقی ہاتھ ہیں جو اس کے شایانِ شان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کی انگلیوں پر قیامت کے دن زمین وآسمان اور دیگر مخلوقات کو رکھ کر انھیں جھٹکا دے کر اپنی بادشاہت کا اعلان کرے گا۔ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک طویل اور غلط بات بیان کی جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تکذیب کرنے کے بجائے اس پر ہنس دیں۔ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم کی بات سن کر ہنس دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور اسے تسلیم کرنے کی علامت ہے، چنانچہ امام ابن خذیمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا نبی اس بات سے بلند وبالا ہے کہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کوئی ایسی صفت بیان کی جائے جو اس کے شایان ِ شان نہ ہو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تردید کرنے کی بجائے وہاں ہنس دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منصب ہرگز نہیں ہے۔ (کتاب التوحید ص 76) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی عالم سے یہ بیان سن کر ہنسنا انکار کے طور پر نہیں بلکہ اس بیان کی تصدیق تھا جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی صراحت کی ہے۔ جلیل القدر صحابی کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا اپنا گمان ہے، بہت دلیری اور جسارت ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیان کی تصدیق کرتے ہوئے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ”ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے، وہ ان باتوں سے پاک اوربالاتر ہے جو یہ لوگ اس کے شریک ٹھہراتے ہیں۔ “(الزمر: 67) گویا مشرکین کے تمام معبودان ِ باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ اللہ تعالیٰ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا ذکر دیگر احادیث میں بھی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اولاد آدم کے رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسا کہ ایک ہی دل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: (اللَّٰهُمَّ مُصَرِّفَ القُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ) ”اے دلوں کے پھیرنے والے!ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ “(مسند أحمد: 168/1) 5۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: قرآن مجید، احادیث نبویہ اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال میں لفظ "ید" سو مرتبہ سے زیادہ ذات باری تعالیٰ کے لیے استعمال ہوا ہے، ان کی صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد حقیقی ہاتھ ہےمثلاً: پکڑنا، لپیٹنا، پھیلانا، سکیڑنا، مصافحہ کرنا، خمیر گوندھنا، لکھنا اس کا دایاں بایاں ہونا۔ ان کا خیروبرکت سے بھر پور ہونا اور جنت عدن میں درخت لگانا وغیرہ۔ ان تمام اعمال صفات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے حقیقی دو ہاتھ ہیں جن کی اور کوئی تاویل نہیں ہو سکتی اور یہ ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں سے قطعاً مشابہت نہیں رکھتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے شایان شان انھیں تسلیم کرنا اور ان پر یقین کرنا ضروری ہے۔ (مختصر الصواعق ص 348)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7415
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7513
7513. سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7513]
حدیث حاشیہ: 1۔ گویا سب معبودان باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔ اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مذکورہ ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔ بلا شبہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئےگا۔ جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولنا کیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔ کسی کوکلام کرنے کی ہمت اور فرصت نہیں ہو گی۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کر کے پوچھے گا۔ ”آج حکومت کس کی ہے؟ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا۔ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے جو بہت دبدبے والا ہے۔ “(المؤمن: 40۔ 16) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اس بات پر آئی کہ یہودی عالم اللہ تعالیٰ کی شان کس انداز سے بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ یہود وہ قوم ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت کو کماحقہ نہیں سمجھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی صحیح اور سچی باتوں کی تصدیق کرنا معیوب بات نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7513