ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے ہلال نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے تو اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔ خواہ اس نے ہجرت کی ہو یا وہیں مقیم رہا ہو جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔“ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس کی اطلاع لوگوں کو نہ دے دیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ درمیانہ درجے کی جنت ہے اور بلند ترین اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7423]
من آمن بالله وبرسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة جاهد في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فاسألوه الفردو
من آمن بالله ورسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة هاجر في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيله كل درجتين ما بينهما كما بين السماء والأرض فإذا سألتم الله فسلوه الفردوس ف
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7423
حدیث حاشیہ: جنتوں کو اورعرش کواسی طرح ترتیب سے تسلیم کرنا آیت (الذينَ يُومِنونَ بالغيبِ) كا تقاضا ہے۔ آمنا بما قال الله وقال رسوله
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7423
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسرے انداز سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کی ہے۔ وہ اس طرح کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت کا اثبات ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلق کے اوپر ہے اوران سے جدا اور الگ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ) ”وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ “(الأنعام61) نیز فرمایا: (يَخَافُونَ رَبَّهُم مِّن فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ) ”اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور انھیں جو حکم دیا جائے اسے بجالاتے ہیں۔ “(النحل: 50) 2۔ اس سلسلے میں فرعون نے اپنے درباریوں کواُلو بنانے کے لیے ایک اسکیم تیار کی۔ وہ کہنے لگا: ”اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں ان راستوں تک پہنچ سکو جو آسمانوں کے راستے ہیں۔ موسیٰ کے الٰہ کی طرف جھانک کر دیکھوں اور بے شک میں تو اسے یقیناً جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں۔ “(المومن: 40۔ 37) یعنی موسیٰ جس الٰہ کی بات کرتا ہے میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں اور کتنی بلندی پر ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ذات باری تعالیٰ کے متعلق یہی عقیدہ پیش کیا تھا کہ وہ آسمانوں کے اوپرہے۔ نیز جو اس کا انکار کرتا ہے وہ فرعون کا اتباع کرتا ہے چنانچہ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جہمیہ میں سے جس نے علو باری تعالیٰ کی نفی کی وہ فرعونی ہے اور جس نے علو کو ثابت کیا وہ موسوی اور محمدی ہے۔ (شرح العقیدة الطحاویة: 259/1) 3۔ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیسیوں دلائل سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت ثابت کی بلکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے علو کو تسلیم کیا جائے کیونکہ انسان دعا کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھاتا ہےاور نہایت عاجزی کے ساتھ جہت علو کا قصد کرتا ہے۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نیچے ہے بلکہ اس سے مقصود اللہ کے حضورخود کو ذلیل کرنا اور نیچا دکھانا ہوتا ہےاللہ تعالیٰ تو ایسی گھٹیا باتوں سے پاک ہے۔ (شرح العقیدہ الطحاویة: 372/1) پہلی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کے اوپر اپنے پاس لکھا۔ ”میری رحمت میرے غصے سے سبقت لے گئی ہے۔ “ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے معنی لکھے ہیں کہ اس کے پاس کائنات کا علم ہے جسے نہ وہ بھولے گا اور نہ اس میں تبدیلی ہی کرے گا۔ (فتح الباری: 13/509) اہل علم اس تاویل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کتاب خاص کو مبنی بر حقیقت تسلیم کرتے ہیں جسے اس نے اپنے پاس عرش پر رکھا ہے۔ یہ اس بات کے منافی نہیں کہ لوح محفوظ میں اسے الگ طور پر لکھا گیا ہے۔ بہر حال یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہے اور عرش پر ہونا بھی حقیقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا عرش کے اوپر ہونا بھی حقیقی ہے۔ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا ہے اور اس کا عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور ان سے الگ ہے۔ (شرح کتاب التوحید للغنیمان: 1/397)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7423
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 480
´نماز کی اہمیت` «. . . - من آمن بالله وبرسوله وأقام الصلاة وصام رمضان كان حقا على الله أن يدخله الجنة، جاهد في سبيل الله أو جلس في أرضه التي ولد فيها، فقالوا: يا رسول الله أفلا نبشر الناس؟ قال: إن في الجنة مائة درجة أعدها الله للمجاهدين في سبيل الله ما بين الدرجتين كما بين السماء والأرض، فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس، فإنه أوسط الجنة وأعلى الجنة - أراه -، فوقه عرش الرحمن، ومنها تفجر أنهار الجنة . . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرے یا اپنی جائے ولادت میں رہائش پذیر رہے۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو (یہ حدیث بیان کر کے) خوشخبری نہ سنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کر رکھا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا تفاوت ہے، جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، جب تم اللہ تعالیٰ سے (جنت کا) سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو، کیونکہ یہ جنت کا منتخب اور اعلیٰ مقام ہے، (میرا خیال ہے کہ یہ بھی فرمایا) اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں . . .“[سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 480]
� فوائد و مسائل حدیث اپنے مفہوم میں انتہائی واضح ہے کہ مسلمان کو اپنی نجات کے لیے صرف توحید، نماز اور روزے پر اکتفا نہیں کرنا چاہئیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسرے معینہ واجبات و مستحبات کا اہتمام بھی کرنا چاہئے۔ بطور مثال جہاد ہے، کہ جہاد کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں سو درجات تیار کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں موقع نصیب فرمائے۔ (آمین)
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 480
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2790
2790. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، خواہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اپنی جائے پیدائش میں بیٹھا رہے۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!کیا ہم لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ان کے دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، لہذا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔“ راوی کہتا ہے کہ میرے خیال کے مطابق آپ نے فرمایا: ”اور اس کے اوپر رحمٰن کاعرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ”اس کے اوپر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2790]
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہ ہو لیکن دوسرے فرائض ادا کرتا ہے اور اسی حال میں مر جائے تو آخرت میں اس کو بہشت ملے گی گو اس کا درجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔ محمد بن فلیح کے روایت کردہ اضافہ میں شک نہیں ہے جیسے یحییٰ بن سلیمان کی روایت میں أراہ الح وارد ہے کہ میں سمجھتا ہوں۔ کہا بہشت کی نہروں سے وہ چار نہریں پانی اور دودھ اور شہد اور شراب کی مراد ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2790
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2790
2790. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے، نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ کے ذمے حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے، خواہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے یا اپنی جائے پیدائش میں بیٹھا رہے۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ!کیا ہم لوگوں کو اس کی خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا: ”بلاشبہ جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ ان کے دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے مابین ہے، لہذا جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروتو فردوس کا سوال کرو کیونکہ یہ افضل اور اعلیٰ جنت ہے۔“ راوی کہتا ہے کہ میرے خیال کے مطابق آپ نے فرمایا: ”اور اس کے اوپر رحمٰن کاعرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“ محمد بن فلیح نے اپنے والد سے یہ الفاظ بیان کیے ہیں۔ ”اس کے اوپر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2790]
حدیث حاشیہ: 1۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے یا نہ کرنے کو دخول جنت میں برابر قراردیا تو اس سے مخاطب بہت خوش ہوا کہ اس پر جہاد کی مشقت نہیں رہی۔ رسول اللہ ﷺ نے جہاد کی اہمیت اورفضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جنت میں سودرجات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں۔ “ اس سے جہاد کی فضیلت اور مجاہدین کے درجات کا پتہ چلتا ہے۔ 2۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو جہاد نصیب نہیں ہوتا لیکن دوسرے فرائض وواجبات ادا کرتاہے اور اسی حالت میں اسے موت آجائے تو آخرت میں اسے جنت نصب ہوگی اگرچہ اس کادرجہ مجاہدین سے کم ہوگا۔ 3۔ امام ترمذی ؒ کی روایت میں ہے: ”فردوس،اعلیٰ درجے کی جنت ہے اور اسی درجے سے جنت کی چار نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے۔ “(جامع الترمذي، صفة الجنة، حدیث: 2531) ان چاروں نہروں سے مراد پانی،دودھ،شہد اور شراب طہور کی نہریں ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ امام بخاری ؒ نے آخر میں جس طریق کاحوالہ دیا ہے اسے آئندہ متصل سند سے بیان کیاہے۔ اس روایت میں کسی شک کے بغیر (وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ) کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث 7423) 4۔ اس حدیث سے جہاد کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے،چنانچہ امام حاکم ؒ نے ایک روایت بیان کی ہے: ”جو کوئی سچی نیت سے جہاد کی خواہش رکھے،پھر وہ فوت ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عطا فرمائے گا۔ “(المستدرك للحاکم: 77/2 و صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 6277)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2790