اور ہشام سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آدمی بھیجا کہ مجھے اجازت دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کیا جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم! میں ان کو اجازت دیتی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پہلے جب کوئی صحابی ان سے وہاں دفن ہونے کی اجازت مانگتے تو وہ کہلا دیتی تھیں کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے ساتھ کسی اور کو دفن نہیں ہونے دوں گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7328]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7328
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے براہ تواضع یہ نہیں منظور کیا کہ دوسری بیویوں سے بڑھ چڑھ کر رہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7328
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7328
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تواضع کے طور پر یہ پسند نہ کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفن ہوں اور لوگ گمان کریں کہ ان کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صاحبین کے بعد دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ ہے۔ ہارون الرشید نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کیسا تھا؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انھیں جو مقام ملا وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا۔ انھوں نے ظاہری قرب کو باطنی قرب کی وجہ قرار دیا کہ صاحبین رضوان اللہ عنھم اجمعین تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ بلند مرتبہ اورقابل احترام تھے۔ (فتح الباري: 337/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7328