پھر میں نکلا تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مل گئے اور میں انہیں لایا اور انہوں نے میرے ساتھ گواہی دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ اس میں ایک غلام یا باندی کی تاوان ہے۔ ہشام بن عروہ کے ساتھ اس حدیث کو ابن ابی الزناد نے بھی اپنے باپ سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے مغیرہ سے روایت کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7318]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7318
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ وقت تھے مگر انہوں نے دوسرے صحابہ سے یہ مسئلہ پوچھا۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو صرف مغیرہ رضی اللہ عنہ کا بیان قبول نہ کیا تو خبر واحد کیوں کر حجت ہوگی وہ حجت ہے جیسے اوپر گزر چکا ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مزید احتیاط اور مضبوطی کے لیے دوسری گواہی طلب کی نہ کہ اس لیے کہ خبر واحد ان کے پاس حجت نہ تھی کیونکہ محمد بن مسلمہ کی شہادت کے بعد بھی یہ خبر واحد ہی رہی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7318
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7318
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں محدث اور ملہم بھی قراردیا تھا، اس کے باوجود انھوں نے فیصلے کرتے ہوئے علماء سے مشورہ کیا، چنانچہ انھوں نے ایک مقدمے میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا کہ تم نے کوئی حدیث اس کے متعلق سنی ہے؟ انھوں نے مزید احتیاط کے پیش نظر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کی ہوئی حدیث پر گواہی طلب کی۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں خبر واحد حجت تھی۔ 2۔ اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ قاضی حضرات کو مقدمات کا فیصلہ کرتے ہوئے انتہائی دوراندیشی اور احتیاط کی ضرورت ہے، انھیں چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ پوری چھان بین کرنے کے بعد کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کریں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7318