10. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ”میری امت کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور جنگ کرتی رہے گی“ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس گروہ سے دین کے عالموں کا گروہ مراد ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے انہیں حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا اللہ ہے اور اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ) یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7312]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7312
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ اللہ کا دین اسلام قیامت تک قائم رہے گا معاندین اسلام لاکھ کوشش کریں مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7312
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7312
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں ہے: "میری اُمت میں ایک گروہ ایسا رہے گا جو اللہ کے دین کو قائم رکھے گا۔ انھیں دوسروں کی مخالفت کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ وہ ہمیشہ حق کا دفاع کرتا رہے گا۔ "(صحیح مسلم، الإمارة، حدیث: 4957(1924) اس حدیث سے حجیت اجماع ثابت ہوتی ہے۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مختلف احادیث میں اس گروہ کے مختلف اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ گروہ اہل ایمان کی مختلف قسموں پر مشتمل ہوگا۔ ان میں میدان کارزار کے مجاہد، علمی میدان کے شہسوار محدث، فقیہ اور مفسر، اخلاقیات میں ہراول دستہ، عبادت گزار، شب بیدار، نیکی کی راہ دکھانے والے، بُرائی سے روکنے والے الغرض ہر قسم کے لوگ ہوں گے جو دین اسلام کی ہر پہلو سےخدمت کریں گے۔ ان کا ایک مقام پر اکٹھا ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ وہ زمین کے مختلف کونوں میں رہتے ہوئے بھی دین کا دفاع کرتے رہیں گے۔ ممکن ہے کہ قرب قیامت کے وقت وہ ختم ہوتے ہوتے ایک ہی مقام پر جمع ہو جائیں۔ جب وہ ختم ہوجائیں گے تو قیامت آجائے گی۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ گروہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے والا ہوگا۔ وہ لوگوں کی رہنمائی صرف قرآن وحدیث سے کریں گے۔ قیاس اور رائے کا بے دریغ استعمال نہیں کریں گے۔ اور یہ گروہ محدثین کرام اور مجاہدین اسلام پر مشتمل ہوگا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7312
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 200
´دین کی فقاہت` «. . . وَعَنْ مُعَاوِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهِ يُعْطِي» . . .» ”. . . سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرنا چاہتا ہے، تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں (علوم الہیٰ کو) لوگوں میں تقسيم کرنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے۔“ اس حدیث کوبخاری, مسلم نے روایت کیا ہے۔ (یعنی اللہ کتاب و سنت کا علم مجھے عطا فرماتا ہے میں اسے لوگوں کو سنا دیتا ہوں۔) . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 200]
تخریج: [صحيح بخاري 71]، [صحيح مسلم 2389]
فقہ الحدیث: ➊ فقہ اصل میں فہم اور سوجھ بوجھ کو کہتے ہیں۔ اس حدیث میں «تفقه فى الدين» کی بڑی فضیلت ہے۔ اس تفقہ والے یعنی فقہاء سے کون لوگ مراد ہیں؟ اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے: «وقد جزم البخاري بأن المراد بهم أهل العلم بالآثار، وقال أحمد بن حنبل: إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم. . .» ”(امام) بخاری نے بطور جزم بتایا ہے کہ ان سے مراد آثار (احادیث) جاننے والے علماء ہیں۔“ اور احمد بن حنبل نے فرمایا: ”اگر یہ لوگ اہل حدیث (محدثین) نہیں ہیں تو پھر مجھے نہیں پتا کہ یہ کون لوگ ہیں؟“[فتح الباري ج1 ص164 تحت ح71] نیز دیکھئے عمدۃ القاری [ج2 ص52] ◄ امام بخاری کے قول کے لئے دیکھئے [مسألة الاحتجاج بالشافعي للخطيب: ص47 وسنده صحيح] ◄ امام احمد بن حنبل کے قول کے بارے میں دیکھئے: [معرفة علوم الحديث للحاكم:ص2 وسنده حسن] ◄ یہ کہنا کہ محدثین کرام فقہاء نہیں تھے، بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ◄ امام بخاری کے بارے میں حافظ ابن حجر نے فرمایا: «وإمام الدنيا فى فقه الحديث» ”اور آپ فقہ حدیث میں دنیا کے امام تھے۔“[تقريب التهذيب: 5725] ◄ امام مسلم کے بارے میں فرمایا: «. . . عالم بالفقه»”فقہ کے عالم۔“[تقريب التهذيب: 6623] ➋ «وإنما أنا قاسم»”اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں“ کی تشریح میں قسطلانی نے لکھا ہے: «أي أقسم بينكم تبليغ الوحي من غير تخصيص» یعنی ”میں بغیر کسی تخصیص کے تمہارے درمیان وحی کو تقسیم کر رہا ہوں۔“[ارشاد الساري ج1 ص170] ◄ معلوم ہوا کہ قاسم سے مراد قرآن و حدیث کا علم لوگوں میں تقسیم کرنا اور پھیلانا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے تقسیم مال (یعنی مال غنیمت کی لوگوں میں تقسیم) مراد لیا ہے اور یہ مفہوم بھی صحیح ہے۔ ➌ یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبے میں بیان فرمائی، جو اس کی دلیل ہے کہ خلفائے اسلام حدیث کو حجت سمجھتے تھے اور عوام میں اس کی علانیہ تبلیغ بھی کرتے تھے، لہٰذا منکرین حدیث کا صحیح حدیث سے انکار خوارج ومعتزلہ کی تقلید اور عجمی سازش ہے۔ ➍ یہ تقسیم کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں تھا اور آپ کی وفات کے بعد اب تمام تفقہ آپ کی احادیث صحیحہ کی اتباع میں ہی ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 71
´ناسمجھ لوگ مدعیان علم اور واعظ خطرہ ایمان` «. . . يَقُولُ:" مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ . . .» ”. . . جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 71]
� تشریح: ناسمجھ لوگ جو مدعیان علم اور واعظ و مرشد بن جائیں نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان ان ہی کے حق میں کہا گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 71
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3116
3116. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اسے دین میں سمجھ عطا کردیتا ہے۔ دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3116]
حدیث حاشیہ: روایت میں آنحضرت ﷺ کے قاسم ہونے کا ذکر ہے‘ باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔ دینی فقاہت بلاشبہ اللہ کی دین ہے‘ یہ جس کو مل جائے۔ رائے قیاس کی فقاہت اورکتا ب وسنت کی روشنی میں دین کی فقاہت دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں۔ دینی فقاہت کا بہترین نمونہ حضرت الاستاد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم کی کتاب حجۃ اللہ بالغہ ہے‘ جس کی سطر سطر سے دینی فقاہت روز روشن کی طرح عیاں ہے‘ اس میں ظاہر پرستوں کیلئے بھی تنبیہ ہے جو محض سرسری نظر سے دینی امور میں فتویٰ بازی کے عادی ہیں‘ ایسے لوگ بھی رائے قیاس کے خوگروں سے ملت کیلئے کم نقصاندہ نہیں ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ ”یکے من علم رادہ من عقل باید“ ایک من علم کیلئے دس من عقل کی بھی ضرورت ہے۔ شیطان عالم تھا مگر عقل سے کورا‘ اسی لےئے اس نے اپنی رائے کو مقدم رکھ کر أنا خُیر مِنهُ کا نعرہ لگایا اور دربار الہیٰ میں مطرور قرار پایا۔ یہ حدیث کتاب العلم میں بھی مذکور ہوچکی ہے مگر لفظوں میں ذرا فرق ہے۔ یہ جو فرمایا کہ امت اسلامیہ ہمیشہ مخالفین پر غالب رہے گی‘ سویہ مطلق غلبہ مراد ہے‘ خواہ سیاسی طور پر ہو یا حجت اوردلائل کے طور پر ہو‘ یہ ممکن ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کسی زمانہ میں کمزور ہوجائیں ‘ مگر اپنی مذہبی خوبیوں کی بنا پر عمل میں ہمیشہ اقوام عالم پر غالب رہیں گے۔ آج اس نازک ترین دور میں جملہ مسلمانوں پر ہر قسم کا انحطاط طاری ہے۔ مگربہت سی خوبیوں کی بنا پر آج بھی دنیا کی ساری قومیں مسلمانوں کا لوہا مانتی ہیں اورقیامت تک یہی حال رہے گا۔ گذشتہ چودہ صدیوں میں مسلمانوں پر قسم قسم کے زوال آئے مگر امت نے ان سب کا مقابلہ کیا اوراسلام اپنی ممتاز خوبیوں کی بنا پر مذاہب عالم پر آج بھی غالب ہے۔ نقاہت سے قرآن وحدیث کی سمجھ مراد ہے جو للہ پاک اپنے مخصوص بندوں کو عطا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے حضر ت امام بخاری ؒ کو یہ فقاہت عطا کی کہ ایک ہی حدیث سے کتنے کتنے مسائل کا استخراج فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3116
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 10
´خیر و بھلائی کس میں ہے؟` ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 10]
فوائد: مذکورہ حدیث سے فقاہت فی الدین کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ فقاہت سے مراد قرآن و حدیث کا فہم ہے نہ اس سے مراد مروجہ اور مخصوص فقہ جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ»[ترمذي: 2658، مسند أحمد: 1/ 436] ”اللہ تعالی تروتازہ رکھے اس شخص کو جس نے میری بات سنی، اس کو یاد کیا اور پھر اس کو آگے پہنچا دیا، کئی حاملین فقہ غیر فقیہ ہوتے ہیں اور کئی حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک میری بات پہنچا دیتے ہیں۔“ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث کو فقہ کہا ہے۔ لیکن افسوس کے آج فقیہ اس کو کہا جاتا ہے جو قرآن و حدیث کی نصوص سے انحراف کر کے صرف اقوال ائمہ اور ان پر مبنی تخریجات کا علم رکھتے ہوں۔ ؎ خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 10
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2389
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”تم ان احادیث کے سوا احادیث بیان کرنے سے بچو جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیان کی جاتی تھیں کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو (روایات کے سلسلہ میں) اللہ سے ڈرایا کرتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا: میں تو بس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2389]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد تک مختلف علاقے فتح ہو چکے تھے ان ممالک میں یہودو نصاری کے اہل علم اپنی کتب کی روایات لوگوں میں بیان کرتے تھے اس لیے اہل کتاب کی روایات کثرت سے پھیلنے لگیں تھیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ان کے حکم سے روایت کے بیان میں بہت حزم و احتیاط سے کام لیا جاتا تھا۔ اور اب عجمیوں کے عام اختلاط سے اس میں کمی واقع ہو گئی تھی اس لیے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی روایات پر اعتماد کرو۔ (2) دین کی سوجھ بوجھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے جو انہیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جن سے اللہ تعالیٰ خیر یعنی عظیم بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اور جو لوگ دین کی سوجھ بوجھ اور اس کے عمیق علم و فہم سے محروم ہیں وہ خیر عظیم سے محروم ہیں۔ (3) ۔ (إِنَّمَا أَنَا خَازِنٌ) میں تو محافظ اور نگہبان ہوں مالک اللہ تعالیٰ ہے میں تو اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دیتا ہوں آگے آرہا ہے کہ: (وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي) میرا کام تو اللہ کی طرف سے ملنے والے علم فقہ اور مال کی اس کے حکم کے مطابق تقسیم کرنا ہے ہر ایک کو اللہ کی عطا کردہ صلاحیت استعداد کے مطابق ملتا ہے میں تقسیم کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا اور نہ کسی کو محروم کرتا ہوں علم و فہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت و قابلیت پر مبنی ہے اور مال کی تقسیم بھی اللہ کے حکم کے مطابق ہے میں تو حکم کا پابند ہوں۔ (4) بلا ضرورت و مجبوری مانگنا یا کسی کو مجبور کر کے اور اصرار کر کے لینا خیرو برکت سے محرومی کا باعث بنتا ہے اگر کوئی کسی کو اہل سمجھ کر خوش دل اور رغبت و شوق سےدیتا ہے تو وہ لینے والے کے لیے خیرو برکت کا باعث بنتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2389
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4956
یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی عنہ سے منبر پر اس حدیث کے سوا کوئی حدیث نہیں سنی تھی، انہوں نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ کسی خیر کا ارادہ کرتا ہے، اسے دین کی سوجھ بوجھ عطا فرماتا ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت ہمیشہ دین کی خاطر لڑتی رہے گی، جو قیامت تک اپنے دشمنوں پر غالب رہے گی۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4956]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: يفقهه في الدين: اسے دین کی سوجھ بوجھ اور گہرائی عنایت فرمائے گا وہ دین کی حقیقت اور روح کو سمجھ جائے گا، اس کے اندر دین سمجھنے کا ملکہ راسخہ پیدا ہو جائے۔ (2) علي من ناواهم: جو ان سےدشمنی کرے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4956
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:71
71. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے دوران خطبہ میں کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کر دیتا ہے۔ اور میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور (اسلام کی) یہ جماعت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی، جو ان کا مخالف ہو گا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم، یعنی قیامت آ جائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:71]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں: (1) فقہ فی الدین کی عظمت۔ (2) ۔ تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے۔ (3) ۔ اس کے حاملین قیامت تک رہیں گے۔ جہاں تک اس کی عظمت کا تعلق ہے وہ تو محتاج بیان نہیں کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دینی معاملات سے بے بہرہ اور قواعد اسلام سے نابلد ہے، وہ خیرو برکت سے تہی دست ہے۔ 2۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو انسان دینی امور میں تفقہ حاصل نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ اگرچہ اس کی سند کمزور ہے تاہم اس کے معنی صحیح ہیں نیز تفقہ فی الدین عطیہ الٰہی ہے صرف محنت اور کوشش سے حاصل نہیں ہوتا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے جو علوم دیے گئے ہیں میں انھیں تقسیم کرنے والا ہوں۔ میری طرف سے کوئی روک یا بخل نہیں ہے۔ جس قدر کسی کے دل میں اس کے حصول کی تڑپ ہوگی۔ وہ اتنا ہی ان علوم سے بہرہ ور ہوگا۔ 3۔ اس کی عظمت بایں طور بھی ہے کہ ان علوم سے فیض یاب ہونے والے تاقیامت رہیں گے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرطائفہ منصورہ سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا گروہ ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی محدثین عظام کی عظمت ثابت ہوتی ہے۔ (فتح الباري: 216/1) امر اللہ سے مراد وہ ہوا ہے جو قرب قیامت کے وقت چلے گی اور اہل ایمان کی ارواح کو قبض کر لے گی۔ اس کے بعد صرف اشرار وکفار باقی رہ جائیں گے پھر انھی پر قیامت قائم ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 71
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3116
3116. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہےانھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اسے دین میں سمجھ عطا کردیتا ہے۔ دینے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت اپنے مخالفین کے خلاف ہمیشہ غالب رہے گی یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم (قیامت) آئے گا تو اس وقت بھی یہ غالب ہوں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3116]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺکے متعلق قاسم ہونے کا ذکر ہے۔ اور امام بخاری ؒکے استدلال کی بنیاد یہی لفظ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خمس کے مالک نہیں بلکہ تقسیم کرنے والے ہیں۔ 2۔ واضح رہے کہ دینی فقاہت اور قیاس کی فقاہت دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ دینی بصیرت بلاشبہ اللہ کی عنایت ہے۔ امت مسلمہ کاغلبہ مطلق ہے، خواہ سیاسی طور پر ہو یا دلائل وبراہین کے اعتبار سے ہو۔ یہ ممکن ہے کہ مسلمان سیاسی طورپر کسی وقت کمزور ہوجائیں مگر اپنی اخلاقی اور دینی خوبیوں کی بنا پر عمل و کردار میں ہمیشہ اقوام عالم پر غالب رہیں گے۔ آج اس نازک دور میں جبکہ مسلمان ہر قسم کے زوال کا شکار ہیں مگر بہت سی خوبیوں کی وجہ سے آج بھی دنیا کی تمام قومیں ان کا لوہا مانتی ہیں، قیامت تک یہی حال رہے گا۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3116