ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ”کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا، یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے، دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ (قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، تو وہ کہے گا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال پر کہ) مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7287]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7287
حدیث حاشیہ: باب کا مطلب اس فقرے سے نکلا کہ ہم نے ان کا کہنا مان لیا‘ ان پر ایمان لائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7287
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7287
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔ 2۔ اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔ بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7287
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فقہ الحدیث: ➊ قبر کا فتنہ مثلاً قبر کا میّت کو بھینچنا اور جھٹکا دینا برحق ہے۔ ➋ کفار و منافقین کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ اسی طرح بعض گناہ گار مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب دیا جائے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے کسی کو معاف فرما کر عذاب قبر سے بچا لے۔ ➌ صحابہ کرام چونکہ سب کے سب عادل «كلهم عدول» ہیں، لہٰذا اگر کوئی صحیح و حسن حدیث کے راوی صحابی کا نام معلوم نہ ہو تو یہ مضر نہیں ہے چاہے صحابی سے تابعی کی روایت «عن» سے ہو (بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اور سماع بھی ثابت ہو) یا تابعی نے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔ ➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے۔ ➎ جمعہ و عیدین کے علاوہ عام خطبات بھی کھڑے ہو کر دینا بہتر ہے، جیسا کہ احادیث کے عموم سے ظاہر ہے اور عام خطبہ بیٹھ کر دینا بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن ابي داود: 4753 وهو حديث صحيح]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 183
´سورج گرہن والی نماز کا طریقہ` «. . . 481- وبه: أنها قالت: أتيت عائشة أم المؤمنين حين خسفت الشمس، فإذا الناس قيام يصلون وإذا هي قائمة، فقلت: ما للناس؟ فأشارت بيدها إلى السماء وقالت: سبحان الله، فقلت: آية؟ فأشارت: أن نعم، قالت: فقمت حتى تجلاني الغشي فجعلت أصب فوق رأسي الماء، فحمد الله رسول الله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه ثم قال: ((ما من شيء كنت لم أره إلا وقد رأيته فى مقامي هذا حتى الجنة والنار، ولقد أوحي إلى أنكم تفتنون فى القبور مثل أو قريبا من فتنة الدجال)) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- يؤتى أحدكم فيقال له: ما علمك بهذا الرجل؟ فأما المؤمن أو الموقن -لا أدري أى ذلك قالت أسماء- ((فيقول: هو محمد رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فأجبنا وآمنا واتبعنا، فيقال له: نم صالحا فقد علمنا إن كنت لمؤمنا، وأما المنافق أو المرتاب)) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- ((فيقول: لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته)) . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سورج گرہن کے وقت آئی تو لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ بھی کھڑی (نماز پڑھ رہی) تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے (سر کے) اشارے سے جواب دیا کہ جی ہاں! پھر میں بھی کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی چھا گئی۔ میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: ”میں نے جو چیز پہلے نہیں دیکھی تھی وہ آج اس مقام پر دیکھ لی ہے حتیٰ کہ میں نے جنت اور جہنم دیکھ لیں اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب۔“ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سے الفاظ کہے تھے۔ تم میں سے ہر آدمی کو لایا جاتا ہے پھر پوچھا جاتا ہے کہ اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے؟ مؤمن یا موقن (یقین کرنے والا) کہتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس واضح دلیلیں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے قبول کیا اور ایمان لائے اور آپ کی اتباع کی۔ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے مؤمن کا لفظ کہا تھا یا موقن کا۔ پھر اسے کہا جاتا ہے: اچھی طرح سو جا، ہم جانتے تھے کہ تو مؤمن ہے۔ رہا منافق یا شکی آدمی تو وہ کہتا ہے: مجھے پتا نہیں میں تو لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنتا تو وہی کہہ دیتا تھا۔ راوی کو یاد نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے منافق کا لفظ کہا: تھا یا شکی کا۔ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 183]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 184، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ ضرورت کے وقت نماز میں اشارہ کرنا جائز ہے اور اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ ➋ کافروں اور گناہ گار مسلمانوں دونوں کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ ➌ قیامت سے پہلے دجال کا ظہور ہو گا۔ ➍ قبر میں سوال جواب برحق ہے۔ ➎ تقلید جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ ➏ ضرورت کے وقت نماز پڑھنے والے سے بات کی جا سکتی ہے مثلاً یہ کہنا کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کا دروازہ بند کر دیں یا میرے پاس آ جائیں۔ وغیرہ ➐ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 171، 459، 496]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 481
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 184
´صرف بیہوشی کے شدید دورہ ہی سے وضو ٹوٹتا ہے` «. . . أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ، وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا لِلنَّاسِ؟ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، وَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ، فَأَشَارَتْ أَيْ نَعَمْ، فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ . . .» ”. . . اسماء بنت ابی بکر سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایسے وقت آئی جب کہ سورج کو گہن لگ رہا تھا اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، کیا دیکھتی ہوں وہ بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا، سبحان اللہ! میں نے کہا (کیا یہ) کوئی (خاص) نشانی ہے؟ تو انہوں نے اشارے سے کہا کہ ہاں۔ تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ (آپ نے اتنا فرمایا کہ) مجھ پر غشی طاری ہونے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ إِلاَّ مِنَ الْغَشْيِ الْمُثْقِلِ:: 184]
تشریح: حضرت امام المحدثین نے اس سے ثابت کیا کہ معمولی غشی کے دورے سے وضو نہیں ٹوٹتا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے سر پر پانی ڈالتی رہیں اور پھر بھی نماز پڑھتی رہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 184
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2064
´عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (اور) اس آزمائش کا ذکر کیا جس سے آدمی اپنی قبر میں دوچار ہوتا ہے، تو جب آپ نے اس کا ذکر کیا تو مسلمانوں نے ایک چیخ ماری جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھنے کے درمیان حائل ہو گئی، جب ان کی چیخ و پکار بند ہوئیں تو میں نے ایک شخص سے جو مجھ سے قریب تھا کہا: اللہ تجھے برکت دے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب کے آخر میں کیا کہا تھا؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2064]
اردو حاشہ: ”فتنہ دجال جیسی آزمائش“ سے مراد قبر میں سوال و جواب ہے۔ اسے فتنۂ دجال سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ دونوں پر خطر مقام ہیں۔ دجال کی دہشت، اقتدار و اختیارات کے سامنے کلمۂ حق پر قائم رہنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح قبر کی ہولناکی، فرشتوں کا رعب، دہشت اور قید تنہائی کوئی معمولی چیز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بغیر ”درست بات“ پر قائم رہنا سخت مشکل ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2064
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2103
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کوگہن لگ گیا، تو میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا:لوگوں کا کیا حال ہے وہ نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی ظاہر ہوئی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی طویل قیام کیا، حتی کہ مجھ پر غشی طاری ہو گئی۔ میرے پہلو میں مشک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2103]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن لگنے کا یہ واقعہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دونوں واقعات سے الگ ہے اور یہاں خطبہ کا مضمون بھی جدا ہے۔ لیکن یہاں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت کیا تھی۔ (2) اس حدیث میں (مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟) ہے اور بعض حدیثوں میں آگے (لِمُحَمَّدِ) کے الفاظ ہیں اور بعض احادیث میں آیا ہے (الّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟) اور اس کے لیے آپ کا وہاں ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ نام سے اور صف بتا کر پوچھا جائے گا۔ یہ تو ایسے ہی جیسا کہ ہرقل نے قافلہ والوں سے کہا تھا۔ (اني سائل عن هذا الرجل) کہ میں ابو سفیان سے اس آدمی کے بارے میں پوچھنے والا ہوں اور اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ آپﷺ کی شکل نظرآئے گی تو پھر بھی بعید نہیں۔ آج ٹی وی پر ہر روز اس صورت کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو اللہ کے لیے یہ کیا مشکل ہے۔ اس لیے اس تاویل کی ضرورت نہیں کہ آپﷺ کی مثل صورت پیش کی جائے گی۔ (3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کی گواہی وہی شخص دے سکے گا۔ جو آپﷺ پر دل کی گہرائی سے ایمان لایا تھا۔ اور جس نے محض سن سنا کر دوسروں کی دیکھا دیکھی گواہی دی اور خود تحقیق کر کے دل سے تصدیق نہ کی وہ جواب نہیں دے سکے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2103
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:86
86. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی جبکہ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے، یعنی وہ پریشان کیوں ہیں؟ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، (یعنی دیکھو سورج کو گرہن لگا ہوا ہے۔) اتنے میں لوگ (نماز کسوف کے لیے) کھڑے ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا: سبحان اللہ! میں نے پوچھا (یہ گرہن) کیا کوئی (عذاب یا قیامت کی) علامت ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا: ہاں۔ پھر میں بھی (نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ پھر (جب نماز ختم ہو چکی تو) نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: ”جو چیزیں اب تک مجھے نہیں دکھائی گئی تھیں، انہیں میں نے اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی، جیسے مسیح دجال یا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:86]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ اشارے کا اعتبار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا جواب اشارے سے دیا۔ اس کی تردید نہیں کی گئی، لہٰذا مسئلہ ثابت ہو گیا کہ سر اور ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اشارہ سمجھ میں آجائے اور مقصد پر دلالت کر رہا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارے کو فتویٰ کے ساتھ خاص کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیم وتقریر میں اشارہ کافی نہیں ہوتا، البتہ فتوے کے موقع پر نفی یا اثبات کے لیے اشارہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے عذاب قبر اور اس میں فرشتوں کا سوال کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ ہلکی غشی پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (عمدۃ القاری: 137،138/2) 3۔ دجال کا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا اور بطور ثبوت قبروں پر جا کر اہل قبور کو کہے گا کہ میرے حکم سے اٹھو تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ درحقیقت معاملہ یہ ہوگا کہ جو شیاطین اس کے تابع ہوں گے، وہ مردوں کی شکل میں قبروں سے برآمد ہوں گے جن کی صورت مردوں کی ہوگی۔ لوگوں کے لیے یہ زبردست امتحان ہوگا۔ اس سے زیادہ سنگین حالات قبر میں ہوں گے۔ ممتحن خوفناک اور سخت مزاج، پھر تنہائی، ایسے موقع پر بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجائےگا۔ أعاذنا الله منه
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 86
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:184
184. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس وقت گئی جب سورج کو گرہن لگا ہوا تھا۔ دیکھا کہ لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور حضرت عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: کیا کوئی نشانی ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے اشارہ کیا کہ ہاں۔ میں بھی نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تا آنکہ مجھے غشی نے ڈھانک لیا اور میں اپنے سر پر پانی بہانے لگی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ”میں نے اپنے اس مقام میں ہر وہ چیز دیکھی جو مجھے پہلے نہ دکھائی گئی تھی، حتیٰ کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا۔ میرے پاس وحی آئی ہے کہ تم اپنی قبروں میں مسیح دجال کے فتنے کے مماثل یا اس کے قریب قریب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:184]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نواقضِ وضو میں غشی کا شمار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مثقل کی قید لگا کر ان لوگوں کا رد کر رہے ہیں جو اسے مطلقاً ناقض کہتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مطلق طور پر غشی ناقض نہیں، صرف وہ غشی ناقض ہے جو انسان کو اس حد تک بوجھل کردے کہ اس کے حواس معطل ہو جائیں، استدلال کی بنیاد حضرت اسماء ؓ کا عمل ہے کہ ان پر بحالت نماز غشی کا اثر ہوا لیکن حواس بحال ہیں، وہ اس حالت میں پانی سر پر ڈالتی رہیں تاکہ بے حواسی ختم ہو جائے۔ اسی حالت میں نماز پڑھتی رہیں۔ آپ کا یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جماعت میں ہوا، اس لیے آپ کی تقریری حدیث کی روسے حجت ہو گیا، اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کی غشی سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ واضح رہے کہ حدیث کے مطابق حضرت اسماء ؓ پر غشی کے اثرات ظاہر ہوئے، لیکن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ”واقعہ یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق حضرت اسماء ؓ کو غشی طاری ہونے کا اندیشہ ہوا غشی طاری نہیں ہوئی۔ “(تدبر حدیث: 285/1) ع، سخن فہمی عالم بالا معلوم شدہ، واقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کا مقصد احادیث میں تشکیک پیدا کرنا ہے خواہ کسی طریقے سے ہو۔ 2۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اِغماء جنون اور غشی مثقل نواقضِ وضو سے ہیں، اس پر تمام آئمہ کا اتفاق ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اس مسئلے میں جمہور کے ساتھ ہیں، البتہ ابن حزم کو اس موقف سے اختلاف ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اس میں اجماع کا دعوی سراسر باطل ہے۔ صرف تین اشخاص نے اس کے متعلق اظہار خیال کیا ہے، ابراہیم نخعی اور حماد تو غشی کے بعد وضو کے قائل ہیں اور حسن بصری اس کے بعد غسل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اب اجماع کہاں ہے؟ نیند اغماء اور جنون و بے ہوشی کے مشابہ نہیں، اس لیے نیند پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں۔ پھر سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ غشی اور اِغماء کی وجہ سے احرام و صیام اور اس کے دیگر معاملات صحیح رہتے ہیں ان میں کوئی بھی باطل نہیں ہوتا وضو کا بطلان بغیر کسی نص صریح کے کیسے ہو جائے گا۔ البتہ اس کے خلاف رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل ثابت ہوا ہے کہ مرض وفات میں آپ نے نماز کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو اِغماء کی صورت طاری ہوگئی پھر جب افاقہ ہوا تو آپ نے غسل فرمایا، اس میں حدیث مذکور کی راویہ حضرت عائشہ ؓ نے وضو کا کوئی ذکر نہیں کیا اور غسل بھی اس لیے تھا کہ ایسا کرنے سے قوت بحال ہو جائے گی۔ (محلی ابن حزم: 222/1) اس سے معلوم ہوا کہ ابن حزم کے نزدیک غشی و اِغماء سے وضو نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کیسی ہی ہو، کیونکہ اس کے لیے کوئی نص صریح نہیں، حالانکہ حدیث عائشہ میں غشی خفیف ہی کی ایک صورت کا ذکر ہے جس سے زوال عقل وحواس نہیں ہوا۔ ممکن ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید ہی کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہو3۔ اس حدیث سے بعض حضرات نے رسول الله ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے پر بھی استدلال کیا ہے کیونکہ اس میں آپ کے لیے ”ھذا الرجل“ استعمال ہوا ہے حالانکہ اس سے مقصود استحضار ذہنی ہے، جیسا کہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان ؓ سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیے تھے تو وہاں بھی ”ھذا الرجل“ کے الفاظ استعمال کیے تھے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ وہاں موجود نہ تھے صرف استحضار ذہنی کے پیش نظریہ اسلوب اختیار کیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 184
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1373
1373. حضرت اسماء ؓ بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے قبر کے فتنے کا ذکر کیا جس میں آدمی مبتلا ہوتا ہے۔جب آپ نے یہ ذکر کیا تو مسلمان چیخیں مار کر رونے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1373]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو انتہائی اختصار سے روایت کیا ہے۔ سنن نسائی میں تفصیل ہے کہ مسلمانوں کی آہ و بکا اور گریہ کی وجہ سے میں رسول اللہ ﷺ کا خطبہ نہ سمجھ سکی، چنانچہ جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو خیروبرکت سے نوازے! رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے کے آخر میں کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: آپ نے فرمایا: ”میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں فتنہ دجال کی طرح آزمائش و امتحان سے دوچار ہو گے۔ “(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 2064)(2) عذاب قبر کے متعلق ایک اور روایت بھی بہت واضح ہے جسے حضرت زید بن حارثہ ؓ کی بیوی ام مبشر ؓ نے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس آئے جبکہ میں بنو نجار کے باغ میں اپنے کام کاج میں مصروف تھی۔ اس باغ میں قبل از اسلام مرے ہوئے لوگوں کی قبریں تھیں۔ آپ نے عذاب کی وجہ سے ان کی چیخ پکار سنی تو یہ فرماتے ہوئے وہاں سے نکلے: ”عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ “ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا انہیں قبروں میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایسا عذاب ہوتا ہے کہ ان کی چیخ پکار حیوانات ہی سنتے ہیں“(مسندأحمد: 362/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1373